امام خمینی(رح) کے عظیم انقلاب کے دو اہم اثرات
انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں سے ایک ظلم اور استکبار کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہے۔ 2500 سالہ شہنشاہیت کے مقابلے میں بغیر کسی اسلحہ کے قیام کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، لیکن امام خمینی (رہ) نے اس خطرے کو مول لیا اور نتیجہ بھی پا لیا۔ اسی کے پیش نظر فلسطینیوں کا غاصب اسرائیل کے مقابلے میں قیام، اسرائیل کے مقابلے میں 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی، عرب ممالک میں بیداری اسلامی کی وسیع تر لہر، یہ سب اسی انقلاب کی استکبار ستیزی کے اثرات میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ عراق اور شام میں استکبار جہانی کا حمایت یافتہ دہشتگرد گروہ (داعش) جب ظلم و ستم کا بازار سجا چکا تھا اور اس کے اثرات ترکی، افغانستان اور پاکستان میں بھی نظر آنے لگے تھے، ایسے میں ایک بار پھر اسی انقلاب اسلامی کے مرہون منت اسلامی ممالک کو اس درندے سے نجات ملی۔
دشمن کی کوشش تھی کہ اسلامی اتحاد پارہ پارہ ہو جائے اور کسی طرح سے بھی مسلمان مل بیٹھ کر عالم اسلام کی مشکلات کا راہ حل تلاش نہ کرسکیں۔ انقلاب اسلامی نے دشمن کی ان سازشوں کے مقابلے میں ہر سال عالم اسلام کے دانشوروں اور مفکروں کو وحدت اسلامی کانفرنس میں دعوت دے کر باہمی اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دیا، جب مسلم دانشور ایک دوسرے سے ملنے لگے اور ایک دوسرے کے نظریات سے آشنا ہوئے تو خود بخود دوریاں کم ہوئیں اور محبتیں بڑھنے لگیں۔ لیکن قسم خوردہ دشمن اب اس محبت کو ہضم نہیں کر پا رہا اور نت نئے پرپیگنڈے کے ذریعے اسلامی بھائی چارے کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہے اور اس سلسلے میں روز بروز مسلمانوں کی ذمہ داری بڑھتی جا رہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے دشمن کے عزائم کو ناکام بنا دیں اور اسلام کی ترویج اور تبلیغ میں شب و روز کوشاں رہیں۔
اس مختصر تحریر میں دو ہی اثرات بیان کرنے کی گنجائش تھی، لیکن امام خمینی (رہ) کے اس عظیم انقلاب کے عالمی اثرات بہت زیادہ ہیں اور ہر شعبے کے اپنے الگ اثرات ہیں، جن کی تفصیل جانے کیلئے امام خمینی (رہ) اور انقلاب اسلامی کے بارے میں لکھی گئی مستند اور مفصل کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔ آج بھی امام خمینی (رہ) کے حقیقی جانشین حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای(دام ظلہ العالی) اسلامی انقلاب کے اہداف کو داخلی اور عالمی سطح پر پوری آب و تاب کیساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔ آپ عالم اسلام کی رہنمائی کیساتھ ساتھ دشمنان اسلام و انسانیت کی سازشوں کا مقابلہ بھی کرتے چلے آرہے ہیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ وہ قرآنی نظامِ زندگی و دینِ اسلام کو فتح و نصرت عطا فرمائے، مسلمانوں کو اتحاد و وحدت کی توفیق نصیب فرمائے۔