شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کی زندگی پر طائرانہ نظر
شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کے بارے میں گفتگو کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ ایران کے مشہور و معروف ڈاکٹر مصطفیٰ چمران ہجرت، جہاد اور شہادت کے مکمل نمونہ تھے۔ وہ مکتب اہلبیت (ع) کے شاگرد تھے اگر ہم ان کی زندگی کا جائزہ لیں تو ان کی زندگی کے کسی ایک پہلو کو بھی جس طرح بیان کرنے کا حق ہے اس طرح بیان کرنا ناممکن ہے لہذا یہ توقع بھی نہیں کی جا سکتی کہ ہم ان چند سطور میں ان کی زندگی کی عکاسی کر سکیں۔
تعلیم: ڈاکٹر مصطفیٰ چمران نے اپنے تعلیم کا آغاز تهران میں واقع "انتصاریه" نامی سکول سے کیا اور پھر دارالفنون اور البرز جیسے اسکولوں میں اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ اس کے بعد تہران یونیورسٹی کے ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا اور سن ۱۳۳۶ ھجری شمسی میں الیکٹرومیکانیک کے شعبہ میں اپنی ڈگری مکمل کی۔ اور اس کے بعد فنی کالج میں ایک سال تدریس کے فرائض انجام دئے۔ سن ۱۳۳۷ ھجری شمسی میں اعلی تعلیم کی غرض سے امریکا تشریف لے گۓ اور اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے امریکا کی مشہور یونیورسٹیوں کیلی فورنیا اور برکلے میں الیکٹرونیک اور پلازما فیزیکس کے شعبہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری جاصل کی۔
معاشرتی سرگرمیاں: پندرہ سال کی عمر میں آپ نے مرحوم آیت اللہ طالقانی کے درس تفسیر قرآن اور استاد شہید مرتضی مطہری کے درس منطق اور فلسفہ کی کلاسوں میں شرکت کا آغاز کیا۔ آپ کا شمار تہران یونیورسٹی میں اسلامک اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے ابتدائی اراکین میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ ملک کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی پیشاپیش رہتے تھے۔ امریکہ میں آپ نے بعض دوستوں کی مدد سے پہلی بار امریکی اسلامک اسٹوڈنٹس سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا اسی طرح کیلی فرنیا میں آپ کا شمار ایرانی اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے بانیوں میں سے ہوتا ہے۔ لہذا اس طرح کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے شاہ نے آپ کی اسکالرشپ کاٹ دی۔
لبنان میں: جمال عبدالناصر کی وفات کے بعد آپ نے لبنان کا رخ کیا اور وہاں امام موسی صدر کی مدد سے بہت سی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور اسرائیل کے ظالمانہ کارناموں کو نمایاں کرنے میں اہم کامیابی حاصل کی اور وہاں کے محرومین اور مستضعفین کی مدد کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
ایرانی انقلاب کی کامیابی کے بعد: شہید ڈاکٹر چمران ایرانی انقلاب کی کامیابی کے بعد ۲۳ سالہ زندگی ملک سے باہر گزارنے کے بعد اپنے وطن لوٹے۔ واپس آنے کے بعد انہوں نے اپنی تمام علمی اور انقلابی صلاحیتوں کو تعمیری کاموں میں صرف کرنے کے لئے انقلاب اسلامی کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ کو وزیراعظم کا معاون مقرر کر دیا گیا اور اس دوران آپ نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتے ہوۓ کردستان میں موجود شورش کا حل نکالا یہاں تک کہ پاوہ نامی واقعہ میں آپ کی ایمانی طاقت و ارادہ اور شجاعت و فداکاری کے جذبات سب پر عیاں ہو گئے۔
وزیر دفاع: کردستان میں اہم کارناموں کے نتیجہ میں آپ کو تہران مدعو کیا گیا اور انقلاب اسلامی کے بانی یعنی امام خمینی (رہ) کی طرف سے آپ کو وزارت دفاع کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔ مذکورہ عہدہ سنبھالتے ہوئے آپ نے انقلابی کامیابی کے پیش نظر مختلف امور انجام دئے تا کہ انقلاب کو اپنی منزل مقصود تک پہنچایا جا سکے۔
اسلامی پارلیمنٹ: ڈاکٹر چمران نے اسلامی پارلیمنٹ کے پہلے الیکشن میں تہران کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے حصہ لیا اور الیکشن جیت کر مزید سرگرمیاں انجام دیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔
خوزستان میں سرگرمیاں: اہواز میں کچھ رضاکار نوجواں آپ کے پاس آئے اور آپ نے ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے اس گروہ کو قوت بخشی جس کا نتیجہ اہواز میں رونما ہونے والی مختلف جنگوں میں سامنا آیا۔ اہواز میں آپ کی منجملہ سرگرمیوں میں ایک یہ تھی کہ آپ نے اپنی کاوشوں و محنتوں کے نتیجہ میں فوج، سپاہ اور عوام الناس کے درمیان ہم آہنگی ایجاد کی اور جنگ کو نئی ٹیکنیک سے ایک نیا رخ دیا جس کے بارے میں استعماری طاقتوں نے پہلے ہرگز نہیں سوچا تھا۔
شہادت: ۳۱ خرداد ۱۳۶۰ ھجری شمسی میں دہلاویہ کے کمانڈر جناب ایرج رستمی شہید ہو گئے تو ان کی شہادت کی خبر سنتے ہی ڈاکٹر شہید چمران کو بہت بڑا صدمہ پہنچا۔ ڈاکٹر چمران نے اس غم و اندوہ کے عالم میں ایک اور کمانڈر کو بلایا اور دہلاویہ جانے کا حکم دیا جن کی تعییناتی پر ایک سپاہی نے نہایت خوبصورت لفظوں میں کہا کہ روز عاشورہ کی طرح امام حسین (ع) کے اصحاب کی طرح ایک ایک کر کے تمام سپاہی قربان ہو چکے ہیں اور اب وہ خود میدان میں جانے کی سوچ رہے ہیں۔ آخر کار ڈاکٹر مصطفیٰ چمران نے سب کو دہلاویہ کے قریب اکھٹا کیا اور ایرج رستمی کی شہادت پر سب کو تعزیت و تسلئت عرض کرنے کے بعد کہا: خداوندمتعال رستمی کو چاہتا تھا لہذا انہیں اپنے بارگاہ میں بلا لیا اور اگر وہ ہمیں بھی دوست رکھتا ہو تو ہمیں بھی بلائے گا۔ المختصر ایک وقت ایسا آیا کہ آپ نے سب سپاہیوں سے خدا حافظی کی اور دشمن کے سامنے فرنٹ لائن پر لڑنے چلے گئے، جنگ مسلسل جاری تھی اور اسی اثناء میں دشمن کی طرف سے ایک گولی آپ کے سر پر لگی گولی لگتے ہی سپاہیوں کے درمیان نالہ و شیون برپا ہو گیا اور آپ کو فوری طور پر ایک ہسپتال پہنچایا گیا جس کا نام بعد میں چمران رکھا گیا اس میں ابتدائی علاج کرنے کے بعد اہواز منتقل کرنا چاہا لیکن اہواز پہنچنے سے پہلے آپ کی روح پرواز کر گئی اور آپ شہید ہو گئے اور جس مالک حقیقی سے ملنے کی تمنا دل میں لئے ہوئے تھے اس سے جا ملے۔