سماجی تربیت امام علی (ع) کی نگاہ میں
اما حضرت امیر المومنین (ع) نے قرآنی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے آیۂ محمّد رسول الله والّذین معه اشدّاء علی الکفّار رحماء بینهم کی بنا پر کچھ سماجی اصولوں کو بیان کیا ہے منجملہ:
۱۔ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا: امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "حسن الخلقِ خیر قرین" اچھا اخلاق بہترین مونس و مددگار ہے۔ امام (ع) کے نزدیک لوگوں کے شرّ سے محفوظ رہنے کا واحد راستہ اچھے اخلاق میں پوشیدہ ہے۔ تسلم من النّاس بحسن الخلق۔
۲۔ دوسروں کے ساتھ اچھے انداز میں گفتگو کرنا: حضرت علی (ع) امام حسین علیہ السلام سے فرماتے ہیں: "اعلم یا بنیّ انّہ من لانت کلمتہ و وجبت محبّتہ" اے بیٹا! جان لو کہ جس کی گفتگو میں نرمی ہو دوسروں کے دلوں میں اس کی محبت یقینی ہے۔ اسی طرح امام (ع) نے لوگوں کے ساتھ گفتگو کے طریقہ کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے: ولا تقل ما لا تعلم بل لا تقل کلما تعلم و لا تقل ما لا تحبّ ان یقال لک" جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اسے مت بیان کرو، بلکہ ہر اس چیز کو بھی بیان نہ کرو جس کا تمہیں علم ہے (یعنی ہر چیز بیان کرنے کے لئے نہیں ہوتی) نیز وہ بات بھی نہ کہو جسے تم اپنے بارے میں ناپسند رکھتے ہو۔
۳۔ دوسروں کے ساتھ نیکی کرنا: حضرت امیر المومنین (ع) اپنے بیٹے امام حسن (ع) سے فرماتے ہیں: و امحض اخاک النّصیحة حسنة کانت او قبیحة و ساعده علی کلّ حال" اپنے بھائی کے ساتھ مخلصانہ انداز میں نیکی کرو چاہے وہ اسے پسند کرے یا نہ کرے اور ہر صورت میں اس کی مدد کرو۔
۴۔ ادب کی رعائت: امام علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسینؑ سے فرماتے ہیں: الادبُ خیر میراث" ادب بہترین میراث ہے۔
۵۔ دوسروں کی عزّت: خداوندمتعال نے عزّت کو خود، پیغمبر اسلامؐ اور مومنین سے مخصوص کیا ہے: و لله العزّة و لرسوله و للمؤمنین۔ اور عزت کے حصول کا طریقہ بھی امام علی (ع) نے بیان فرمایا ہے کہ اگر تم عزت دار زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو اس تک پہنچنے کا راستہ یہ کہ تم لوگوں سے بے نیاز رہو جیسا کہ آپؑ، امام حسین (ع) سے فرماتے ہیں: ای بنّی عزّ المومن غناہ عن الناس" اے بیٹا! مومن کی عزّت لوگوں سے بے نیازی میں پوشیدہ ہے۔
۶۔ عفو و بخشش: سماجی تربیت کے اصولوں میں ایک اصل دوسروں کی خطاؤں کو بخشنے میں پوشیدہ ہے کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے علاوہ ہر انسان اپنی زندگی میں خطاؤں کا شکار ہوتا ہے اور ممکن ہے وہ اپنی خطا کو سمجھنے کے بعد پشیمان ہو اور اس کے بعد اسے دھرانے کا ارادہ نہ کرے۔ لہذا امام (ع) فرماتے ہیں: و اقبل عذر من اعتذر الیک و خذ العفو من النّاس" جو بھی تم سے معذرت خواہی کرے اسے معاف کر دو اور لوگوں کو معاف کرنا اپنا مشغلہ بنا لو۔
۷۔ راز کی حفاظت: دوسروں کے ساتھ روابط میں بعض اوقات ہم ایسے نکات کی طرف متوجہ ہوے ہیں جنہیں وہ سب کے سامنے بیان کرنا پسند نہیں کرتے لہذا دوسروں کے رازوں کی حفاظت بھی ایک سماجی فریضہ ہے۔ لہذا امام علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں " من ھتک حجاب غیرہ انکشف عورات بیتہ" جو دوسروں کی عزت کا خیال نہیں کرتا تو اس کے گھریلو عیوب بر ملا و آشکار ہو جاتے ہیں۔ مذکورہ کلام سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ دوسروں کی چھپے عیوب کو ظاہر کرنے سے انسان کے گھریلو عیوب ظاہر ہونے لگتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے۔
۸۔ نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا: ایک مومن کو صرف اپنی سلامتی سے خوشی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے بلکہ وہ اپنے سماجی ماحول کا بھی ذمہ دار ہے اور اسے معاشرہ میں موجودہ برائیوں کا مقابلہ کرنا چاہئے نیز اسے معاشرہ کی اخلاقی و معنوی زندگی کے لئے تلاش و کوشش کرنی چاہئے۔ اس سلسلہ میں امام علی (ع) فرماتے ہیں: نیکیوں کا حکم دو تا کہ تم اس کے اہل بن سکو اور ناپسندیدہ چیز کو اپنے ہاتھوں اور زبان دونوں سے انکار کرو۔
۸۔ علماء کے ساتھ اٹھنا، بیٹھنا: انسان کی زندگی کا ایک پہلو دوسروں سے روابط میں پوشیدہ ہے اب اسے دیکھنا ہے کہ وہ کس کے ساتھ روابط برقرار کرے تا کہ اسے اپنی معنوی و ثقافتی زندگی میں کامیابی نصیب ہو۔ اس سلسلہ میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: و من خالط العلماء وقّر" جو شخص علماء کے ساتھ اٹھتا، بیٹھتا ہے اس کا سب احترام کرتے ہیں۔ ایک اور مقام پر اپنے بیٹے محمد حنفیہ سے فرماتے ہیں: اے بیٹا! علماء و اہل علم حکماء کی نصیحتوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرو اور ان کی افکار پر غور و فکر کرو۔
۹۔ صلہ رحم: سماجی تربیت میں اپنے رشتہ داروں سے محبت سے لبریز رابطہ قائم کرنا امام علی علیہ السلام کی منجملہ تاکیدات میں سے ایک تاکید ہے اس طریقہ سے خاندانی رشتے مضبوط ہوتے ہیں اور جزئی اختلافات کا بھی خاتمہ ہوتا ہے۔ امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ اپنے رزشتہ داروں سے رابطہ میں رہنا عظمت کی علامت ہے اور اگر تم اپنے رشتہ داروں سے قطع رحم کرو گے تو پھر تم کسی سے صلہ رحم کی امید نہ رکھنا۔
۱۰۔ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا: پڑوسی ایک بہت بڑی نعمت ہے اگر انسان اس کی قدر و منزلت کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے پڑوسیوں کے حقوق و فرائض کا بھی پابند ہو۔ اس سلسلہ میں امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ بہترین ہمسائگی یہ کہ ایک دوسرے کی احوالی پرسی کی جائے۔
۱۱۔ نیک افراد کے ساتھ اٹھنا، بیٹھنا: بعض افراد کا سروکار ہمیشہ نیک کاموں سے ہوتا ہے اور وہ لوگوں کی مشکلات دور کرنے میں خود بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جان کی بازی لگا دیتے ہیں لیکن دوسروں کو پریشان نہیں ہونے دیتے۔ امام علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو خطاب فرماتے ہوئے اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: و لقاء اھل الخیر عمارۃ القلوب" نیک افراد کا دیددار دلوں کی آبادی کا سبب بنتا ہے۔
امام علی علیہ السلام کی مذکورہ تعلیمات و بیانات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سماجی تربیت ایک اہم امر ہے جس کا مقصد خدائی احکام کی انجام دہی کے لئے آپسی تعاون و ہمکاری ہے اور یہ چیز خود خدائی قربت کا ذریعہ اور انسانی و عالمی خلقت کا آخری مقصد ہے۔ اور عصر حاضر میں تمام معاشروں میں اس چیز کی کمی محسوس ہو رہی ہے اور یہ کہنا بجا ہو گا کہ معاشروں کی نیست و نابودی کی ایک وجہ مذکورہ تعلیمات سے دوری کے نتیجہ میں ہے۔