امام حسن علیہ السلام کا تواضع اور انکساری
یوں تواسلامی سال کا کوئی بھی مہینہ ماہ محرّم جیسا غم انگیز نہیں لیکن ماہ صفر ایسا ہے جو درد وغم کے بیکراں سمندر اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہے جن کی طغیانیاں مصائب ماہ محرّم کی تفسیر کرتی ہیں ماہ صفر ایک طرف اہل حرم کے فتح شام و کوفہ کا گواہ ہے اور ایک طرف بادشاہ غیرت کے سیدانیوں کی بے چادری پر جھکے سر کا شاہد ہے یہی ماہ صفر ہے کہ جس نے اپنے دامن پر پیامبر اسلام کی فرقت اور کریم اہلبیت کی شہادت کی داستان رقم کی ہوئی ہے ہاں اسی ماہ کی اٹھائیس تاریخ کو پیامبر کے غم فراق کے بعد ایک اور تازہ غم اہلبیت اور ان کے محبّوں کے دلوں میں سرایت کر گیا ہاں وہ شہزادہ سبزقبا کہ جو باغ نبوت اور امامت کا پہلا ثمرہ تھا جام شہادت نوش کر گیا وہ چلا گیا کہ جس کی ماں زہرا دختر نبی اور ہم پلّہ علی تھی وہ کہ جسے نبی نے اپنا بیٹا اور اپنی خوشبوکہا اس دنیائے فانی کو چھوڑ گیا وہ بادشاہ کہ جس کی رعایامیں حسین اور زین العابدین جیسے معصوم زینب و کلثوم جیسی با وقار خواتین عباس اور محمد حنفیہ اور عبداللہ ابن جعفر جیسے شجاع تھے پائتخت ابدی کی طرف کوچ کر گیا وہ کہ جو کائنات کا امام اور جوانان جنت کا سردار تھا مجالس میں جس کا ذکر نہ ہونا فاطمہ کو رنج پہونچاتا ہے کیوں کہ حسن بھی تو فرزند زہرا ہے اور فاطمہ اسے بھی تو اپنے حسین کی طرح چاہتی ہیں اس کی شھادت کی مناسبت پر ان کے فضائل کے سمندر سے کچھ قطرے الفاظ کی شکل میں ساغر کاغذ میں جمع کر رہا ہوں تاکہ کچھ تو زہرا کا حق ادا ہو جائے اور کچھ تو اجر رسالت ادا ہو یوں تو ہمارا ہر معصوم ہر صفت کمال کا حامل ہوتا ہے لیکن کچھ صفات کسی معصوم میں گردش زمانہ یا حالات کے تقاضوں کے تحت زیادہ رو نما ہو جاتی ہیں امام حسن کی حیات طیّبہ میں ایک طرف جہاں صفّین کی معرکہ آرائیاں ملتی ہیں وہیں دوسری طرف صلح کی شمع بھی ذوفشاں ہے ایک طرف نماز جیسی جلوہ نمائی ہے وہیں دوسری طرف ۲۰ سے ۲۵ تک پیدل حج عشق الہٰی کی گواہی دے رہے ہیں ایک طرف شادمانہ طرز زندگی ہے تو دوسری طرف زاہدانہ خیرات ، ایک طرف سکوت عبادتوں میں ڈھل رہا ہے تو دوسری طرف علم وحلم کے دریا بہہ رہے ہیں.
تواضع اور منکسر مزاجی بزرگی اور کمال نفس کی علامت ہے رسول خدا فرماتے ہیں کہ انسان کا متواضع ہونا اسے سر بلند کرتا ہے ایک دن امام حسن نے دیکھا کہ راستہ میں کچھ فقیر زمین پر روٹی کے ٹکڑ ے رکھے کھا رہے ہیں ان لوگوں نے امام کو دیکھا تو کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی آپ نے دعوت کو قبول فرمایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی : انّ اللہ لا یحبّ المتکبّرین جب کھانے سے فارغ ہوئے تو امام نے ان کو اپنا مہمان ہونے کی دعوت دی انہیں کھانا کھلایا اور لباس عطاکیا.
جس کے دل میں بھی خدا کی محبّت ہو اس کے ساتھ زندگی بسرکرنا آسان ہو جاتی ہے اور انسان یاد خدا اور ذکر خدا کے ذریعہ دل کو نرم کر سکتا ہے امام حسن کے ایک غلام نے خیانت انجام دی تو امام نے چاہا اس کو سزا دیں تاکہ وہ اس خطا کی دوبارہ جرأت نہ کرے لیکن کریم آقاکاغلام مزاج آشنا تھا فورا کہتا ہے : والکاظمین الغیظ امام فرماتے ہیں کہ میری ناراضگی دور ہو گئی غلام کہتا ہے :والعافین عن الناس ۔امام نے فرمایاکہ: میں نے تیری خطاکو معاف کیا غلام یہیں خاموش نہیں ہوتا بلکہ کہتا ہے : واللہ یحبّ المحسنین۔ امام فرماتے ہیں کہ میں نے تجھے خدا کی راہ میں آزاد کیا اور تیرے حقوق کو دو برابر کیا۔