حضرت خدیجۃ الکبریٰؑ
تحریر: سیدہ زینب نقوی
جناب خدیجة الکبریٰ علیہ السلام وہ ہستی ہیں جن کے لیے یہ اسلام ان کے احسانات کا مرہون منت ہے، وہ عظیم ہستی جن کے شوہر نبی خدا، خاتم النبیین، جن کی بیٹی ام ابیہا، کائنات کی وہ خاتون جنھیں خاتون جنت کا خطاب ملا اور داماد وہ جو آئمہ طاہرین کے والد اور وصی خدا۔ جناب خدیجۃ الکبریٰ کی ذات مقدس کے اتنے اوصاف ہیں کہ نہیں معلوم کہ کہاں سے لکھنا شروع کروں۔ جناب خدیجہ کی دین اسلام کے لیے اتنی قربانیاں ہیں کہ شاید ہی ان کا شمار ممکن ہو۔ نبی کریم نے حضرت خدیجہؑ کے بارے میں ارشاد فرمایا: "خدا نے خدیجہ سے بہتر کوئی عورت مجھے نہیں دی، جب لوگ مجھے جھوٹا کہتے تو وہ میری سچائی کی گواہی دیتی اور جب لوگوں نے مجھ پر پابندیاں لگائیں تو اس نے اپنی دولت کے ذریعے میری مدد کی اور خدا نے اس سے مجھے ایسی اولاد عطا کی، جو دوسری زوجات سے عطا نہیں کی۔"(شیخ مفید، الافلاح، ص ۷۱۲)
جناب خدیجہ بنت خویلد (متوفی سنہ ۰۱ھ) جو کہ خدیجۃ الکبریٰؑ اور ام المومنین کے نام سے مشہور ہیں، پیغمبر اکرم کی پہلی زوجہ تھیں، جن سے نبی کریم نے بعثت سے قبل نکاح کیا تھا۔ نبی کریم حضرت محمد، حضرت خدیجہؑ کا اتنا احترام کرتے تھے کہ ان کی زندگی میں دوسری شادی نہ کی بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ اچھے الفاظ سے انہیں یاد فرمایا۔ یہاں تک کہ نبی کریم کی باقی ازواج اس بات سے حسد بھی کرتی تھیں کہ نبی کریم ہمیشہ انہیں اچھے الفاظ میں یاد فرماتے تھے۔ حضرت خدیجہؑ جو کہ خاتون حجاز یا ملیکة العرب کے نام سے مشہور تھی، نہایت ہی عقلمند خاتون تھیں۔ آپؑ کی مادی قوت اور مال و دولت سے زیادہ اہم آپؑ کی روحانی اور معنوی دولت تھی۔ آپ نے قریش کے ان اشراف زادوں سے شادی کی درخواست مسترد کر دی بلکہ آپ نے حضرت محمد کو اپنے شریک حیات کے طور پر منتخب کیا اور اپنی تمام مادی اور دنیاوی دولت اسلام کی راہ میں خرچ کر دی۔
اس کے بارے میں سلیمان اکتانی لکھتے ہیں: "جناب خدیجہؑ نے اپنی دولت نبی کریم کو بخش دی، مگر وہ یہ محسوس نہیں کر رہی تھیں کہ اپنی دولت آپ کو بخش رہی ہیں بلکہ محسوس کر رہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ جو ہدایت محمد کی محبت اور دوستی کی وجہ سے تحفہ آپ کو دے رہی ہیں اور اس کے بدلے میں سعادت اور خوش بختی کی تمام چوٹیوں کو سر کر رہی ہیں۔" ایک دفعہ نبی کریم بہت پریشان بیٹھے تھے، بی بی خدیجہؑ نے دریافت کیا کہ ”یارسول اللہ! اتنے پریاشن کیوں ہیں؟" فرمایا: لوگ میری بات نہیں سنتے ہیں۔ اس موقع پر آپؑ نے پورے عرب میں منادی کروا دی کہ جس جس نے میرا قرض دینا ہے، آئے اور اپنا قرض معاف کروا لے۔ اس طرح لوگوں کی ایک کثیر تعداد جو آپؑ کی مقروض تھی، وہ آگئے۔ وہ پہلے نبی کریم کے پاس جاتے ان کی بات سنتے (تبلیغ اسلام) پھر بی بیؑ اس کے عوض ان کا قرض معاف فرما دیتیں۔
نبی کریم فرماتے ہیں: "کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا، جتنا فائدہ مجھے خدیجہؑ کی دولت نے پہنچایا۔" ایک اور بہت ہی دلچسپ روایت ہے کہ حضرت آدم صفی اللہ جو اس روئے زمین پر سب سے پہلے انسان تھے، جناب خدیجہ کی ولادت سے کئی ہزار سال قبل بیان کر گئے تھے، حضرت آدمؑ نے فرمایا: "قیامت کے روز میں تمام انسانوں کا باپ اور سردار ہوں گا، لیکن میرے بیٹوں میں سے ایک بیٹا جس کا نام محمد ہے، مجھ سے دو فضیلتوں کی وجہ سے افضل ہوگا جو یہ ہیں: 1۔ ان کی بیوی (خدیجہؑ) ان کی انتہائی وفادار، شریک کار اور غم خوار ہوں گی، جبکہ میری حواؑ اس حد تک نہیں پہنچی ہوئی ہیں۔ 2۔ وہ میرا بیٹا مکمل طور پر اپنے نفس امارہ پر غالب ہوگا (یعنی وہ ترک اولیٰ کا بھی مرتکب نہ ہوا ہوگا) جبکہ میں اس منزل پر نہیں ہوں۔(کتاب سیدہ العرب، ص ۵۲۱،۶۲۱)
پیغمبر اکرم نے فرمایا: "چار عورتیں ایسی ہیں جو اپنے زمانے میں تمام عورتوں کی سردار تھیں اور وہ یہ ہیں: مریمؑ بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم(فرعون کی زوجہ)، خدیجہؑ بنت خویلد اور فاطمہؑ بنت محمد اور ان سب میں سے جہاں میں افضل فاطمہ ہیں۔" رسول کریم کی وفادار شریک حیات کے بارے میں جتنا بیان کیا جائے، اتنا ہی کم معلوم ہوتا ہے۔ محسنہ اسلام، وہ خاتون جنھوں نے نبی کریم کے دین اسلام کو لبیک کہا۔ جو ہر قدم پر نبی پاک کے ساتھ ساتھ رہیں اور ان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں، یہاں تک کہ جب اہل قریش نے شعب ابی طالب جیسی گھاٹی میں بنی ہاشم کو محصور کر دیا تو خوشی خوشی اپنے شوہر رسول خدا کے ساتھ رہیں۔ درحقیقت یہ محاصرہ بہت سخت تھا اور ایسے مصائب تھے کہ کسی بھی انسان کی توڑ پھوڑ کے لیے کافی تھے۔ اگرچہ ان افراد میں اسلام دوستی، ایثار اور قربانی کا جذبہ نہ ہوتا تو ان حالات میں زندہ رہنا بھی مشکل تھا نیز یہ محاصرہ کسی شکنجے سے کم نہ تھا، جہاں پر انسان ایک دم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ موت کی وادل میں چلا جاتا ہے۔
اسی لیے جب وہ محاصرہ ختم ہوا اور نبی کریم کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی تو حضرت خدیجہؑ اور نبی کریم کے چچا جان (والد حضرت علیؑ) جناب ابو طالب بستر مرگ تک پہنچ چکے تھے۔ تقریباً محاصرہ کے اختتام کے دو ماہ کے اندر اندر بعض روایات کے مطابق حضرت خدیجہ حضرت ابو طالبؑ کی رحلت یا شاید شہادت کہنا بھی غلط نہ ہوگا کے 54 دن بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ یہ نبوت کا دسواں سال تھا۔ اس سال کو نبی کریم نے ”عام الحزن“ یعنی غم کا سال قرار دیا۔