ماہ رمضان المبارک کا استقبال
کسی بھی چیز کا استقبال اس کی اہمیت و فضیلت کے اعتبار سے کیا جاتا ہے اسی طرح رمضان المبارک تمام مہینوں میں سے سب سے زیادہ فضیلت والا مہینہ ہے اس کی فضیلت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب اسی مہینہ میں رسول اکرمؐ پر نازل ہوئی جیسا کہ ارشاد ہوا ہے کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے کتاب ھدایت ہے، دین اسلام نے اس کے استقبال اور اسے الوداع کہنے کے طریقہ کار کی طرف ہم سب کو متوجہ کیا ہے۔ ہمارے ہاں ایک کلی اصل پائی جاتی ہے جب موسم بہار آتا ہے تو سب اس موسم میں لذت محسوس کرتے ہیں، تازہ ہوا کھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اچھے انداز میں اس کا استقبال کرتے ہیں یا محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی کے مطابق پہلے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آئندہ دو، تین دن میں موسم کیسا رہے گا اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ماہ رمضان المبارک سے پہلے ہی ہمیں بتا دیا کہ ایسا مہینہ آنے والا ہے جو سعادت و خوشبختی، برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوں کا مہینہ ہے جس کی سعادت سے لبریز فضا کا ہر مسلمان و مومن کو اچھے انداز میں استقبال کرنا چاہئے آپؐ نے نہایت ہی خوبصورت انداز میں ماہ شعبان کے آخری ایّام میں ماہ رمضان المبارک کے استقبال کے سلسلہ میں فرمایا: ایّھا النّاس قد اقبل الیکم شھر اللہ بالبرکۃ و الرّحمۃ و المغفرۃ، شھر ھو عنداللہ افضل الشھور و ایّامہ افضل الایّام و لیالیہ افضل الّلیالی و ساعاتہ افضل السّاعات ھو شھر دُعیتم فیہ الی ضیافۃ اللہ۔ ۔ ۔ انفاسکم فیہ تسبیح، و نومکم فیہ عبادۃ، و نومکم فیہ عبادۃ و عملکم فیہ مقبول و دعاؤکم فیہ مستجاب۔ اے لوگو! تمہاری جانب اللہ کے مہینہ نے برکت و رحمت و مغفرت کے ذریعہ رخ کیا ہے یہ مہینہ اللہ کے نزدیک سب سے افضل مہینہ ہے اسکے دن سب سے افضل اور اس کی راتیں سب سے افضل راتیں ہیں اس کی گھڑیاں سب سے افضل ہیں یہ ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں ضیافت الہی کی جانب مدعو کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ اس مہینہ میں تمہاری سانسیں تسبیح، تمہاری نیند عبادت، تمہارا عمل مقبول اور تمہاری دعائیں مستجاب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ خدا کا مہینہ ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جس طرح پوری زمین خدا کی ہے لیکن سرزمین مکہ سرزمین وحی ہے اور حاجی جب اس میں داخل ہوتے ہیں تو وہ مہمان خدا ہوتے ہیں اسی طرح اگرچہ سب مہینے خدا کے مہینے ہیں لیکن ماہ رمضان المبارک مہمانی کا مہینہ ہے اور اس میں میزبان خدا ہوتا ہے اس میں تمام مسلمان خدا کے ہاں مہمان ہوتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری فقہی کتابوں میں عرفانی بحثیں نہیں ہیں یا اگر کسی فقیہ نے بحث کی ہے تو بہت کم بحث کی ہے لیکن یہ مسئلہ اتنا شفاف ہے کہ اسے ہماری بعض فقہی کتابوں میں بھی بیان کیا گیا ہے جیسے صاحب جواہر نے کتابِ جواھر میں اور آقا سید محمد کاظم یزدی نے کتابِ عروۃ میں روزہ کی بحث میں بیان کیا ہے۔ بعض احادیث سے ملتا ہے کہ روزہ کی فضیلت میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں روزہ دار انسان فرشتہ کی طرح ہو جاتا ہے، فرشتہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور نہ ہی اس میں نفسانی خواہشات پائی جاتی ہیں اور ایک مسلمان و مومن کے لئے بھی ماہ رمضان المبارک میں فرشتہ بننا ممکن ہے۔ لہذا ہمیں اس کا استقبال اس طرح کرنا چاہئے کہ ہمیں خود کو اس طرح تیار کرنا چاہئے کہ ہم اس با برکت مہینہ سے بھرپور فائدہ لے سکیں تا کہ دنیوی و اخروی سعادت حاصل ہو سکے۔ اس مہینہ میں ہمیں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا چاہئے خداوندمتعال سے مغفرت طلب کرنا چاہئے کیونکہ وہ شقی ہے جو اس عظیم الشان مہینہ میں بخشا نہ جائے، اس مہینہ میں بھوک و پیاس سے ہمیں روز قیامت کی بھوک و پیاس کو یاد کرنا چاہئے، فقراء و مساکین کا خیال رکھنا چاہئے، بزرگوں کا احترام اور چھوٹوں پر رحم کرنا چاہئے، صلہ رحم برقرار رکھنا چاہئے، اپنی زبانوں کا روزہ ہونا چاہئے۔ رمضان المبارک کا صحیح استقبال نفس کو صحیح معنوں میں تقوی، نیکی اور انسانی اقدار پر مبنی اعمال انجام دینے کا عادی بنانا ہے اور اس چیز پر ماہ رمضان المبارک کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ثابت قدمی اور پابندی دکھانا ضروری ہے۔
رہبر معظم حضرت آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ ماہ رمضان کی فضیلت کے بارے میں فرماتے ہیں: ماہ رمضان جنت کا ایک ٹکڑا ہے جسے خدا ہماری مادی دنیا جیسی دہکتی ہوئی جہنم میں اتارتا ہے اور ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اس مہینہ کی الہی میزبانی میں خود کو جنت میں پہونچا دیں، بعض لوگ فقط انہیں تیس دنوں میں جنت میں وارد ہوتے ہیں اور کچھ ان تیس دنوں کی برکت سے پورے سال اور بعض پوری عمر جنت میں رہتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اس سے غافل رہتے ہوئے کنارے سے گذر جاتے ہیں جو حقیقت میں بہت ہی افسوسناک ہے۔