حسین مسکراہٹ
اس رات مدرسہ علوی میں خبر لائی گئی کہ مدرسہ کے چھوٹے صحن کا کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ اس زمانہ میں ہم لوگوں کے پاس اسلحہ نہیں تھا تو دروازہ کی لکڑی کے ذریعہ حفاظت کی گئی تھی۔ خلاصہ دروازہ کھولا گیا۔ دیکھا کہ امام ہیں وہ بھی تن تنہا اور شاید حاج احمد بھی آپ کے ہمراہ تھے اور دوسرے دروازہ سے آئے تھے۔
"امام آئے، امام آئے" کی شوق آمیز آواز سب تک پہونچی اور 10/ 20/ افراد جو اس رات مدرسہ علوی میں تھے امام کو گھیرے میں لے لیا اور آپ کا ہاتھ چومنے لگے۔ امام نے بہت زیادہ تھکے ہونے کے باوجود ان لوگوں کی خواہشوں کا خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کیا۔ تعجب کررہا تھا کہ امام نے صبح سے اس وقت ایک لقمہ کھانا نہیں کھایا ہے اور نہ ایک گلاس پانی پیا ہی اور سفر کی تھکاوٹ بھی ہے اس کے باوجود بہشت زہرا جانا اور تقریر کرنا اتنی تھکاوٹ کے باوجود اس طرح لوگوں کے ساتھ کیسے سلوک کرسکتے ہیں۔ میں بھی آیا اور دروازہ کے پاس کھڑا ہوگیا اور اکی میٹر کے فاصلہ سے آپ کو دیکھنے لگا۔ برسوں سے امام کو دیکھا نہیں تھا۔ لیکن قریب نہیں گیا تا کہ ایک فرد کے فاصلہ کے بقدر بھی مزاحمت ایجاد نہ کروں۔ امام آئے اور زینوں کی طرف چلے گئے جو دوسرے منزل پر جاتی تھی۔ تقریبا 50/ سے 60/ افراد زینہ کے نیچے شوق کے عالم میں اپنے رہبر کو دیکھتے رہے۔ امام زینوں سے اوپر گئے۔ جیسے ہی پہونچے مجمع کی طرف رخ کیا اور چار زانو ہوکر زمین پر بیٹھ گئے۔ بہت ہی دلچسپ حرکت تھی۔ جب سب نے دیکھا کہ امام زمین پر بیٹھ گئے ہیں تو وہ لوگ بھی ٹھہرگئے۔ امام نے مسکراتے ہوئے ان لوگوں کی احوال پرسی کی اور گفتگو شروع کردی۔ امام نے 10/ یا 15/ منٹ مسکرائے ہوئے ہم لوگوں سے گفتگو کی اور یہ ناقابل فراموش اور یادگار اور دلچسپ لمحہ ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای