بعثت کا حقیقی مفہوم
بعثت رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کئی اہداف و مقصد بیان کیے جاتے ہیں، ہر ہدف اور مقصد نیز فلسفہ بعثت کے ساتھ جزوی اور مجموعی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے، لیکن عملی میدان میں بعثت کا فلسفہ پوری طرح سمجھنے کے لیے جس شخصیت کے افکار و نظریات کو جدید تقاضوں، علمی حوالوں اور قرآنی مفاہیم کے معیارات کے مطابق قرار دیا جاتا ہے، وہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی شخصیت ہے، وہ گذشتہ کئی برسوں سے یوم بعثت یعنی 27 رجب کو اس مفہوم کو جدید تقاضوں اور سماجی ضروریات کے مطابق سادہ بنا کر پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ امسال 27 رجب کے رہبر انقلاب کے خطاب میں دو بنیادی مفاہیم کو بیان کیا گیا ہے۔
لیکن ان مفاہیم کو پوری طرح سمجھنے کے لیے رہبر انقلاب کے بعثت سے متعلق ماضی کے خطابات اور تحریروں سے آشنائی ضروری ہے۔ رہبر انقلاب گذشتہ ایک سال سے جدید اسلامی تمدن کے نظریئے کو وضاحت کے ساتھ ایرانی معاشرے میں پیش کر رہے ہیں، اسے رہبر انقلاب نے دوسرے قدم یعنی گامِ دومِ انقلاب اسلامی سے بھی تعبیر کیا ہے۔ آج کے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے آزادی اور سماجی انصاف کو بعثت کا اصل فلسفہ اور ہدف قرار دیا ہے۔ یہ دونوں وہ مفاہیم ہیں، جن پر مغربی دنیا کے دانشور بھی عرصے سے کام کر رہے ہیں اور اس بات کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ مغرب کا موجودہ معاشرہ آزادی یعنی فریڈم اور سماجی انصاف یعنی سوشل جسٹس پر قائم ہے۔
نعرہ یقیناً بڑا ہے اور مغرب کا دعویٰ بھی قوی ہے، لیکن مغرب نے یہ نظریہ بعثت پیامبر (ص) سے لیا ہے اور اسکو اپنے اہداف کیلئے استعمال کیا ہے، لیکن اس کو مکمل طور نافذ نہیں کیا ہے۔ جس آزادی اور سماجی انصاف کو اسلام اور بعثت پیامبر (ص) کی تعلیمات سے اخذ کیا جاتا ہے، وہ حقیقی آزادی اور صحیح سماجی انصاف ہے، جو خدا کی اطاعت اور تمام طاغوتی طاقتوں سے آزادی کا درس دیتے ہوئے ایسے معاشرے کے قیام کی دعوت دیتا ہے، جس میں امیر و غریب، آقا و غلام، حاکم و رعایا، سیاہ فام و سفید فام اور کسی بھی تعصب اور تفریق کا دور دور تک کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔ البتہ حقیقی آزادی اور سماجی انصاف کے لیے ایک الہٰی اور قرآنی ریاست کا تصور لازمی امر ہے۔