سارے اعتبار کو نظر انداز کردیا
نجف اشرف میں مختلف علمی سطحوں کے طالب علم اپنے حدود کی پاسداری کرتے تھے مثال کے طور پر ایک طالب ایک فاضل کی حد اور ایک فاضل ایک مجتہد کی حد یا ایک مجتہد ایک مرجع تقلید کی حد میں حشر و نشر اور معاملہ نهیں کرتا تھا۔ ان افراد میں سے ہر کوئی اپنی حد کی رعایت کرتا تھا۔ اور عرفی اعتبار سے ایک مجتہد کی شان یہ نہیں تھی کہ وہ ایک معمولی طالب علم کے گھر جائے بلکہ رسم یہ تھی کہ تمام لوگ مراجع اور مجتہدین کے سامنے سر تعظیم خم کریں۔ اور ایک فریضہ کے عنوان سے ان کے دیدار کو جائیں۔ لیکن جب امام خمینی (رح) نجف اشرف گئے تو آپ نے نجف کے ہر ایک حوزہ علمیہ میں گئے اور طلبہ پر لطف و کرم کیا۔ جرات کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ شیعیت کی پوری تاریخ میں کوئی مرجع ایسا نہیں تھا جو اپنی مرجعیت کے در میں نجف کے مدارس اور حوزہ علمیہ میں گیا اور مبتدی طالبعلموں سے گفتگو کی ہو اور ان کی زندگی کی صورتحال کا جائزہ لیا ہو۔ یہ امام تھے کہ آپ نے ساری حیثیت اور اعتبار کو بالائے طاق رکھ کر نجف اشرف میں ایک اسلامی اچھی سنت قائم کی۔
راوی: حجت الاسلام و المسلمین سید علی اکبر محتشمی