حضرت زہرا سلام اللہ علیھا انسان کامل کا مکمل نمونہ تھیں
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی تاریخ ولادت با سعادت ۲۰ جمادی الثانی ہے اور امام خمینی (رہ) کی ولادت بھی اسی تاریخ میں ہوئی۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیرت کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان کامل کا مکمل نمونہ تھیں حقیقت میں اگر ایک انسان کامل کو ایک عورت کے وجود میں متعارف کرایا جائے تو اس کا واحد مصداق حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ذات ہے۔ امام خمینی (رہ) اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ سلام اللہ کی ولادت کا دن ایک عظیم الشان دن ہے اس دن ایک ایسی خاتون نے اس دنیا میں قدم رکھا جو تمام مردوں میں موجودہ تمام اچھی صفات کی برابری کرتی ہیں، ایک ایسی خاتون دنیا میں تشریف لائی ہیں جو تمام انسانیت کے لئے نمونہ عمل ہیں بلکہ ایسی خاتون دنیا میں آئی ہے جس کے اندر تمام انسانی حیثیات جلوہ نما ہیں۔ ایک اور مقام پر امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ولادت کا دن نہایت ہی عظیم الشان دن ہے اور آپ سلام اللہ علیہا کی ولادت ایسے ماحول میں ہوئی جب عورت کو ایک انسان کی حیثیت سے معاشرہ میں پیش نہیں کیا جاتا تھا اور اس کا وجود زمانہ جاہلیت میں مختلف اقوام کے نزدیک شرمساری اور شرمندگی کا سبب شمار کیا جاتا تھا، ایسے فاسد اور خوف زدہ ماحول میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت کے ذریعہ عورت کو زمانہ جاہلیت کی مختلف عادتوں سے نجات دلائی تا کہ اس طریقہ سے وہ بتا سکیں کہ معاشرہ میں عورت کو خاص مقام و منزلت حاصل ہے یعنی اگر وہ مرد سے برتر نہ ہو تو تب بھی وہ اس سے کمتر نہیں ہے۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک تاریخی معجزہ اور عالم وجود کا افتخار ہیں: جب خداوندمتعال نے انسان کو پیدا کرنا چاہا تو اس نے حکم دیا کہ "وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائكَةِ إِنىِّ جَاعِلٌ فىِ الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَ تجَعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَ نحَنُ نُسَبِّحُ بحِمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنىِّ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمونَ" ( بقرہ/ ۳۰) اے رسول، اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور انہوں نے کہا کہ کیا اسے بنائے گا جو زمین میں فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب کہ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں تو ارشاد ہوا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو۔
خداوندمتعال نے انسان کی حقیقت اور خلیفہ الہی کا مقام پہچنواتے ہوئے ملائکہ کو متوجہ کیا کہ یہ موجود گزشتہ خلق کی گئی تمام موجودات سے الگ ہے، یہ موجود خلیفہ خدا، خدا کا امین اور اس کے لئے باعث افتخار ہے۔ انسانی تخلیق میں ایک ایسا وجود جس کے وجود سے خداوندمتعال نے ملائکہ پر فخر کیا اور فرمایا: انظروا الی امتی فاطمه سیّدة امائی قائمة بین یدی ترتعد فرائصها من خیفتی و قد اقبلت بقلبها علی عبادتی ۔ ۔ ۔ ۔ میری تمام کنیزوں کی سردار، فاطمہ کی جانب دیکھو وہ میری بارگاہ میں کیسے کھڑی ہوتی ہیں اور میرے خوف سے ان کے جسم کے تمام اعضاء کانپنے لگ جاتے ہیں اور وہ اپنے دل و تمام وجود سے میری عبادت کرتی ہیں۔ حضرت امام خمینی (رہ) بھی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے با برکت وجود کی عظمت کی معرفت کے بعد فرماتے ہیں: ماہ جمادی الثانی بہت ہی عظیم الشان مہینہ ہے اس میں ایک ایسی خاتون کی ولادت ہوئی جو تاریخ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے اور عالم وجود کے افتخارات میں سے ہے لہذا جناب فاطمہ سلام اللہ کی ولادت کی تاریخ کو ایران میں روز زن (عورت سے مخصوص دن) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لہذا امام (رہ) فرماتے ہیں: یہ دن ایرانی قوم کے لئے ایک با برکت دن ہے بالخصوص ایرانی عورتوں کو اس دن کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ ایسا دن ہے جو کائنات میں خلیفۃ اللہ کی بلند و برتر اقدار اور انسانی فضیلتوں کا دن ہے۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے معنوی مقامات: حضرت فاطمہ سلام االلہ علیہا اگرچہ مقام نبوت و امامت پر فائز نہیں ہوئیں لیکن وہ ان تمام معنوی مقامات پر فائز تھیں جو ایک انسان کے لئے ممکن ہیں۔ امام خمینی (رہ) نے اپنی فقہی، فلسفی اور عرفانی معلومات کی بنا پر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے معنوی مقامات اور ان کے وجودی پہلوؤں کو اچھے انداز میں بیان فرمایا ہے۔ "بنیادی طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اطہار علیھم السلام سے منقولہ روایات کی بنا پر کائنات کی تخلیق سے پہلے عرش الہی پر کچھ انوار موجود تھے اور انہیں بقیہ تمام انسانوں پر امتیاز حاصل رہا ہے اور وہ الی ماشاء اللہ مقامات کے حامل تھے۔ جیسا کہ روایات معراج میں جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں: "لو دنوت انملة لاحرقتُ" اگر میں انگلی کے ایک پور کے برابر بھی آگے بڑھوں تو جل جاؤں گا۔ یا یہ روایت کہ " انّ لنا مع اللّه حالاتٌ لایسعه ملکٌ مقرّبٌ و لا نبیٌّ مرسل" ہمارے خدا کے ساتھ ایسے گہرے روابط ہیں جہاں نہ کوئی مقرّب فرشتہ پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی پیغمبر مرسل۔ اور یہ چیز ہمارے مذہب کے اصولوں میں سے ہے کہ ہمارے ائمہ ظاہری حکومت و قیادت و رہبری سے ہٹ کر ایسے مقامات پر فائز تھے۔ جیسا کہ بعض روایات کے مطابق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اس طرح کے معنوی مقامات پر فائز تھیں۔ جبکہ اگر ان کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نہ حاکم تھیں، نہ منصب قضاوت پر فائز تھیں اور نہ ہی منصب خلافت پر۔ لہذا یہ مقامات حکومتی ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ قاضی و خلیفہ نہیں تھیں تو اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہماری طرح ہیں یا وہ ہم پر معنوی برتری رکھتی ہیں۔ امام خمینی (رہ) حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی معنوی اور ملکوتی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں: وہ تمام پہلو جو ایک عورت کے لئے تصور کئے جاتے ہیں اور ایک کامل انسان کے لئے قابل تصور ہیں وہ سب حضرت فاطمہ سلام اللہ کے وجود میں جلوہ نما ہیں لہذا وہ ایک عام عورت نہیں تھیں بلکہ ایک روحانی، ملکوتی عورت تھیں، اپنے تمام معنوں میں وہ ایک مکمل انسان تھیں، انسانیت و بشریت کے تمام نسخے ان کے وجود با برکت میں پوشیدہ تھے، ان کا وجود ایک ملکوتی وجود تھا جو انسان کی صورت میں ظاہر ہوا بلکہ یوں کہا جائے کہ ان کا وجود ایک خدائی و جبروتی وجود تھا جو ایک عورت کی شکل میں ظاہر ہوا۔ وہ تمام کمالات جو ایک عورت میں قابل تصور ہیں وہ اس عورت یعنی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میں پائے جاتے ہیں۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک ایسی خاتون ہیں جن کے وجود میں تمام انبیاء علیھم السلام کی خصوصیات موجود ہیں۔ ایسی خاتون جو اگر مرد ہوتیں تو یقیناً نبی ہوتیں۔ عورتوں کے مختلف پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام معنوں میں ایک عورت ہیں۔