دنیا اسلام ناب محمدی (ص)کی پیاسی
آج کا انسان معنویت سے دور اور سراب مانند دنیا کے زرق و برق سے تھک چکا ہے وہ ایک ایسے سر چشمہ حقیقت کی تلاش میں ہے جو اس کی زندگی کو معنی اور مقصد عطا کرے ،وہ ایسے پر امن سفینہ کی تلاش میں ہے جو اسے طوفان دنیا سے بچا کر ساحل نجات تک پہنچا دے ،وہ ایسی روشن شمع کو ڈھونڈ رہا ہے جو اسے مادیت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر معنویت کی سحر سے ہمکنار کر دے۔ لہذا ایسے میں سوائے اسلامی و الہی تعلیمات کے کوئی اور روشنی اسے ظلمتوں سے نہیں نکال سکتی۔ اللہ ولی الذین آمنو یخرجھم من الظلمات الی النور( بقرہ،٢٥٧)
امام خمینی(رہ) پوری دنیا کے انسانوں کی دلی تڑپ کو بھانپ چکے تھے وہ یہ محسوس کر چکے تھے کہ آج کے انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ لہذا انہوں نے یہ فرمایا: ''امروز جھان تشنہ فرھنگ اسلام ناب محمدی است'' ۔ آج دنیا حقیقی اسلامی ثقافت کی پیاسی ہے۔(صحیفہ نور،ج ٢٠،ص٣٣)
انقلاب اسلامی ایران سے پہلے بہت سارے فلاسفر دین عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی ایک پرانا اور فرسودہ دین سمجھتے تھے کہ جس کی مدت تمام ہو گئی ہو ، جس کا اعتبار ختم ہو گیا ہو، جیسا کہ جرمنی کے ایک فلاسفر ہیگل کا کہنا ہے: ''تاریخی اعتبار سے اسلام کا سماج میں اثرختم ہو چکا ہے''(نشریہ پرتو ٨،٢،٨٢ ش ص ١٧٦)۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ محض ایک خطا تھی ۔ انقلاب اسلامی ایران نے اسلام کو ایک زندہ اور ماورائے تاریخ دین ثابت کر کے یہ بتا دیا کہ ہیگل اور اس کے جیسے دیگر فلاسفروں کے نظریات دین عیسائیت کے سلسلے میں تو سچے ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اسلام کے بارے میں تویہ صرف ایک وہم و خیال ہیں ۔اسلام ایسا زندہ و جاوید دین ہے جسے تاریخی اوراق فرسودہ نہیں کر سکتے۔ وہ ایک ایسی لایزال حقیقت ہے جو تاریخ کو وجود اور حیات دیتی ہے نہ کہ گزر تاریخ سے اس کے اعتبار پر کوئی فرق پڑتا ہے۔
ایران کا انقلاب قومی اور ملی انقلاب نہیں تھا جس نے صرف ایرانی قوم کو استعماری طاقتوں سے آزادی دلائی ہو بلکہ وہ ایک اسلامی انقلاب ہے۔ اس نے اسلام کواستعماری اذہان اور تفکرات کی زنجیروں سے آزادی دلائی، اسلام کو تاریخ کے بیابانوں میں پژمردہ اور فرسودہ ہونے سے بچا لیا اور اس تصور کو لوگوں کے ذہنوں سے پاک کر دیا کہ دین صرف نماز و روزہ کا نام ہے دین صرف مسجد و منبر تک محدود ہے سیاست اور حکومت سے اس کا کوئی رابط نہیں ہے ۔ بلکہ انقلاب اسلامی نے اس چیز کو ثابت کر دیا کہ دین در حقیقت اس لیے نازل ہوا ہے کہ لوگوں کے نظام زندگی کو منظم و مرتب کرے ، سماج میں عدل و انصاف کو قائم کرے اور انہیں دنیوی اور اخروی سعادت سے ہمکنار کرے۔ دین اور سیاست دو الگ مقولے نہیں ہیں بلکہ ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ دین عین سیاست ہے لیکن نہ وہ سیاست جس میں دھوکہ بازی اور جھوٹ و مکاری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ دینی سیاست وہ سیاست ہے جس کی مثال امیر المومنین علی علیہ السلام کے چار سالہ دور خلافت میں نظر آئی یا پھر اس کی ایک جھلک آج اسلامی جمہوریہ ایران کی صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔