چہلمِ سید الشہدا (ع) کا مقصد اور فلسفہ
چہلم صرف سالوں کے دنوں میں ایک دن نہیں ہے بلکہ کروڑوں ذمہ دار انسانوں کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں مقصد عاشورا و تحریک عاشورا کی تصویر نظر آتی ہے۔ چہلم ایک ایسا عظیم الشان دن ہے جس نے خونِ حسین علیہ السلام سے حیات پائی کیونکہ اس دن امام حسین علیہ السلام کی یاد میں آپؑ کی قبر مطہر کے پاس سب سے پہلی مجلس برپا کی گئی اور آپؑ کے مقاصد کی تبلیغ کا ذریعہ قرار پائی۔ اسلامی و عاشورائی سماج میں چہلم امام حسین بن علی علیھما السلام کے یومِ شہادت کی یاد منانے کو کہا جاتا ہے جو ماہ صفر کی بیسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے، بیس صفر کو شیعیان حیدر کرارؑ و امام حسینؑ اپنے ممالک میں مختلف شہروں میں امام حسین علیہ السلام کی یاد میں مجالس عزا برپا کرتے ہیں اور اس دن دینی شعائر کی عظمت بیان کی جاتی ہے۔ سب سے عظیم چہلم حسینی کا منظر شہر کربلا میں ہوتا ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں عاشقان امام حسین علیہ السلام دنیا بھر سے تشریف لاتے ہیں اور آپؑ کی یاد میں مختلف قسم کی مجالس برپا کی جاتی ہیں۔
چہلم کا فلسفہ یہ ہے کہ اس دن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی یاد تازہ ہوتی ہے اور یہ چیز کافی اہمیت کی حامل ہے، اگر یہ واقعہ بہت سے دوسرے واقعات کی طرح فراموشی کے حوالے کر دیا جاتا جیسا کہ بنی امیہ کا خیال خام یہی تھا کہ امام حسین اور ان کے اصحابِ باوفا کو کربلا کی تپتی ریت پر قتل کر کے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے اور آئندہ نسلوں کو معلوم ہی نہ ہو پائے کہ کربلا میں کیا رونما ہوا تو ایسی صورت میں عالم اسلام کے لئے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا کیا کوئی فائدہ ہوتا؟ کیا اس واقعہ کی تاریخ میں آئندہ نسلوں کے لئے کوئی تاثیر ہوتی؟ اگر اس زمانہ کے لوگ اور ان کے بعد والی نسلیں یہ نہ سمجھ پاتیں کہ امام حسین علیہ السلام کو کربلا میں شہید کیا گیا تو کیا انسانی ہدایت اور انسانی بیداری کے لئے اس کا کوئی کردار ہوتا؟ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ اس واقعہ کی کوئی تاثیر نہ ہوتی۔ لہذا شہادت سید الشہداء اور آپ کے باوفا اصحاب کی یاد کو جس دن نے بقا عطا کی ہے وہ چہلم کا دن ہے، چہلم ایسا دن ہے جس دن شہادت کربلا کے پیغام کا آغاز ہوا یقیناً ایسا دن ہے جو شہداء کی بقا کا دن ہے۔