امام حسن ع

امام خمینی(رح) کی نظر میں صلح امام حسنؑ کے اسباب اور شرائط

جب کچھ نادانوں اور بیہودہ افکار رکهنے والوں نے امام علیہ السلام کواپنا کام انجام دینے کی اجازت نہ دی اس موقع پر امام عالی مقام نے معاویہ سے صلح کر کے اس کی ظاہری عزت وآبرو بھی ختم کر دی۔امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کا وہی حشر کیا جو سرکار سید الشہداء نے یزید کا کیا۔

امام خمینی(رح) کی نظر میں صلح امام حسنؑ کے اسباب اور شرائط

بیعت

ماہ مبارک رمضان سن ۳ ہجری  کی پندرہویں تاریخ کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔ آپ اپنے والد بزرگوار امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد حکم خدا وندی اور وصیت امام علی علیہ السلام کے تحت امامت کے درجہ پر فائز ہوئے اور ظاہری خلافت کے حق دار بنے ۔تقریباً ۶ مہینے تک مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر رہی ۔

مندرجہ ذیل سطور میں آپ حضرت امام خمینی رہ کے بیانات کا خلاصہ مطالعہ فرمائیں گے جس میں امام راحل نے ان شرائط کا ذکر فرمایا ہے جن کے سبب امام حسن علیہ السلام کو معاویہ سے صلح کرنی پڑی:

معاویہ اس دور کا ایک بادشاہ تھا؛ حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نے اس کے خلاف قیام فرمایا جب کہ اس دور میں ہر کسی نے اس انسان کی بیعت کر رکھی تھی اور ہر کوئی اسے اپنا بادشاہ محسوب کر رہا تھا۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے تا حد امکان اس کے خلاف قیام فرمایا۔ جب کچھ نادانوں اور بیہودہ افکار رکھنے والوں نے امام علیہ السلام کواپنا کام انجام دینے کی اجازت نہ دی اس موقع پر امام عالی مقام نے معاویہ سے صلح کر کے اس کی ظاہری عزت وآبرو بھی ختم کر دی۔امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کا وہی حشر کیا جو سرکار سید الشہداء نے یزید کا کیا تھا۔

(صحیفه امام، ج‏2، ص:371)

امام حسن علیہ السلام کو جتنی اذیت اپنے چاہنے والوں اور اصحاب سے پہنچی، کسی اور سے نہ پہنچی۔ وہ اصحاب جو اس بات سے غافل تھے کہ ان کے وقت کا امام کس منطق کے ساتھ عمل کر رہا ہے۔ جنہوں نے اپنے بیجا اور بھونڈے خیالات کے ذریعہ امام علیہ السلام سے مقابلہ کرنے کو تیار، امام کو اذیتیں پہنچا کر قتل کی منزلوں تک پہنچایا اور میں تو کہوں گا۔ امام کو شکست دی، امام کے دشمن سے معاہدہ کر بیٹھے اور ہزار قسم کی مشکلات ان کے سبب وجود میں آئیں۔

(صحیفه امام، ج‏9، ص:30)

... شاید امام حسن علیہ السلام اور اس دور کی مشکلات نیز حادثہ کربلا رونما نہ ہوتے۔ ان تمام گناہوں کے ذمہ دار نہروان کے وہ تقدس مآب ہیں جن پر خدا کی ازلی وابدی لعنت ہے۔ اگر خود پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے دور میں آنحضرت کی دلخواہ حکومت نافذ ہو جاتی ہرگز یہ مسائل پیش نہ آتے،لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ایک گروہ اسلام کے نام پر دشمنی کر بیٹھا اور ایک دوسرا گروہ بھی جو کہ آپ کے اطراف میں تھا؛ وہ بھی قرآن کریم کے نام پر امیرالمومنین علیہ السلام  کے لئے مشکل ایجاد کر بیٹھا اور یہ افسوس کا مقام ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کو ستاتا رہے گا۔

(صحیفه امام، ج‏18، ص:409)

امام حسن علیہ السلام کی تحمىلى صلح کا واقعہ صرف اس لئے تھا کہ امام حسن علیہ السلام اپنے اطراف کے خیانت کرنے والے ساتھیوں کے سبب خلافت نہ کر سکیں۔ صلح کے بعد باعتبار روایت، تاریخ کی رو سے معاویہ منبر پہ جا کر کہتا ہے میں نے اپنے کئے وعدوں کو روند ڈالا بالکل اس شخص کی طرح جس نے معاہدہ کی قدر نہ کی۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی یہ صلح اور امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانہ میں ہونے والی حکمیت دونوں تحمیلی تھیں، دونوں کے سرغنہ بعض عیار ومکار اور حیلہ گر افراد تهے۔

(صحیفه امام، ج‏20، ص:118)

ای میل کریں