ایک تاریخی حقیقت کا جائزہ، رحلتِ پیغمبرؐ یا شہادت
کیا پیغمبر اکرمؐ کو شہید کیا گیا یا آپؐ کی رحلت ہوئی؟ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ جنگ خیبر میں مسموم ہوئے لیکن بعض افراد مسلمانوں کے درمیان یہ چیز رائج کرنا چاہتے ہیں کہ پیغمبرؐ کی رحلت ہوئی۔ اور قابل توجہ ہے کہ یہ چیز ہماری محافل و مجالس میں بھی بیان کی جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ پیغمبرؐ اسلام کو کئی مرتبہ شہید کرنے کی کوشش کی گئی، بعثت کی ابتدا میں مشرکین مکہ نے آپ کو شہید کرنے کی کوشش کی اور اس کے بعد بالخصوص مدینہ ہجرت کے بعد جب اسلامی حکومت تشکیل دی گئی تو حکومت کے لالچی منافقین نے بھی کئی مرتبہ حضرت رسول اکرمؐ کو شہید کرنے کی کوشش کی اور آخر کار انہوں نے ہی آپؐ کو زہر جفا سے شہید کر دیا اور وہ اپنی آرزوؤں تک پہنچ گئے۔ دوسری بات یہ کہ عملی طور پر ہمیں ظاہر کرنا چاہئے کہ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت نہیں ہوئی بلکہ انہیں شہید کیا گیا۔ اس دعوی کی دلیل یہ ہے کہ ابتدائے اسلام کی تاریخ کے علاوہ ہمارے پاس امام صادق علیہ السلام سے منقولہ بہت سی روایات پائی جاتی ہیں جن میں آپؑ نے فرمایا: کوئی پیغمبر یا اس کا وصی ایسا نہیں جسے شہید نہ کیا گیا ہو۔ یعنی وہ خدا کی راہ اسے قتل کیا گیا ہے۔ شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب منتہی الآمال میں اسی مضمون کی ایک روایت امام صادقؑ سے نقل کی ہے اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔ اس مقام پر ہم اپنا دعوی ثابت کرنے کے لئے کچھ روایات ذکر کر رہے ہیں:
ابو صلت ہروی نے امام رضاؑ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے شہید نہ کیا جائے۔
شیخ صدوق اپنی کتاب الاعتقادات میں لکھتے ہیں: ہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کو جنگ خیبر میں زہر دیا گیا اور آپؐ ہمیشہ اس تکلیف کا اظہار کیا کرتے یہاں تک آپؐ کی رگِ گردن اسی زہر جفا کے نتیجہ میں بند ہو گئی اور پھر آپؐ کی شہادت واقع ہوئی۔ ( بحارالانوار، ج 5، ص 176)
ہشام بن محمد اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے اپنے بابا امیرالمومنینؑ کی شہادت کے بعد اپنے خطاب میں فرمایا: پیغمبر اکرمؐ نے مجھے خبر دی کہ میرے بعد میرے بارہ جانشین ہوں گے جنہیں خدا نے منتخب کیا ہے اور ہم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جسے یا زہر سے یا تلوار سے شہید کیا جائے گا۔ (بحارالانوار، ج 5، ص 178)
سورہ عنکبوت کی ابتدائی آیات لے کر جبرائیلؑ پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئے اور کہا: اے محمد پڑھو: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُتْرَکوا أَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا یُفْتَنُونَ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِینَ صَدَقُوا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکاذِبِینَ أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئاتِ أَنْ یَسْبِقُونا ساءَ ما یَحْکمُونَ ( عنکبوت، ۱۔۳) ترجمہ: المۤ۔ کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا۔ بیشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہرحال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں۔
جبرائیل سے رسول اکرمؐ نے فرمایا: کون سا امتحان ہے؟ جبرائیل نے عرض کیا اے محمد خدا نے آپؐ کی خدمت میں سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ میں نے آپ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر بھیجے انہوں نے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں اپنے جانشینوں کا تعارف کرایا جنہوں نے ان کے احکامات اور طریقے زندہ کئے لہذا سچے وہ ہیں جو رسول خدا کا حکم مانتے ہیں اور جھوٹے وہ ہیں جو ان کی نافرمانی کرتے ہیں، خدا نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ کے وصال کا وقت قریب ہے اور آپ اپنے بعد علی ابن ابی طالبؑ کو اپنا جانشین مقرر کریں اگر امت نے ان کی پیروی کی تو صحیح راستہ پر گامزن رہے گی۔ حذیفہ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول خداؐ نے علیؑ کو بلایا اور ان کے ساتھ کچھ گفتگو کی اور پھر اسی دن و رات خدا کی جانب سے عطا کردہ علم و حکمت انہیں عطا کیا اور انہیں آگاہ کیا کہ جبرائیل نے کیا پیغام دیا ہے۔ جب یہ خبر ادھر ادھر پھیلی تو کافی لوگوں نے ناراضگی کا اظہار کیا اور وہیں سے پیغمبرؐ اسلام سے دشمنی مزید بڑھ گئی اور آخر کار یہ چیز طے پائی کہ آپؐ کو ایک سرکش اونٹ پر بٹھایا جائے اور اس سے گرنے کے نتیجہ میں آپؐ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ انہوں نے متفقہ طور پر یہی کام جنگِ تبوک میں انجام دیا لیکن خداوندمتعال نے ان کے شرّ سے آپؐ کو محفوظ رکھا۔ البتہ یہ معلوم ہو گیا کہ انہوں نے متفقہ طور آپؐ کو قتل کرنے، زہر دینے وغیرہ کی شازشیں رچی تھیں۔ (ارشاد القلوب، ج 2، ص 235- 238 )
تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ "زینب" نامی ایک یہودی عورت نے بھیڑ یا بکری کے گوشت میں زہر ملا کر آپؐ کی خدمت میں بھیجا اور پیغمبرؐ نے پہلا ہی لقمہ نوش کرنے کے بعد محسوس کیا کہ یہ گوشت زہریلا ہے۔ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے زندگی کے آخری لمحوں میں اپنی بیماری کے عالم میں فرمایا: میری رگیں بند ہونے کی وجہ وہی زہریلا کھانا ( گوشت) تھا۔ آیت اللہ سبحانی لکھتے ہیں: مشہور ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے زندگی کے آخری لمحموں میں بیماری کے عالم میں فرمایا: یہ بیماری اسی زہریلی غذا کی وجہ سے ہے جو ایک یہودی عورت کے ذریعہ مجھے کھلائی گئی۔ شائد انہی تاریخی و روایاتی وجوہات کی بنا پر بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کو شہید کیا گیا۔
البتہ بعض تاریخی شواہد کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ کی شہادت کی وجہ جنگ خیبر میں زہریلا کھانا نہیں تھا لہذا یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ آپؐ کو شہید کیا گیا ہے کیونکہ زہر کا واقعہ ہجرت کے ساتویں سال کا ہے اور آپؐ کی وفات ہجرت کے گیارہویں سال میں واقع ہوئی ہے لہذا یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل ہے کہ یقینی طور پر آپؐ کو شہید کیا گیا ہے۔ البتہ ائمہ اطہار علیہم السلام کے فرمودات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام معصومینؑ شہید کئے گئے ہیں۔ امام علی بن موسی الرضاؑ نے فرمایا: ہم میں سے ہر ایک یا مسموم ہوا ہے یا شہید کیا گیا ہے۔ ( امالی طوسی، باب فضل الزیارۃ الرضا علیہ السلام)۔
کمالات کے مراتب میں ایک مرتبہ شہادت ہے اور حضرات معصومینؑ کمال کے اعلی مراتب پر فائز تھے۔ جیسا کہ زیارت جامعہ کبیرہ میں ہم پڑھتے ہیں: المثل الاعلی و یا فبلغ الله بکم اشرف محل المکرمین و اعلی منازل المقربین. ....حیث لا یلحقه. ..لاصدیق ولا شهید۔ اس بنا پر تمام معصومین منجملہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شہید کیا گیا۔
منبع:Hawzah.net