امام خمینی (رح) کی نظر میں اسلام کا مستقبل "سید مصطفی خمینی (رح)"
مصطفی خمینی علم و عمل اور فکر و نظر میں اعلی رتبہ انسان تھے۔ کمسنی میں بہت سارے فضائل و کمالات کے مالک اور سیاسی میدان میں باکمال اور ماہر سیاست داں تھے۔ آپ کی سیاسی بصیرت اور سوجھ بوجھ اس درجہ تھی کہ کبھی باطل کی سازشوں کا شکار نہیں ہوئے اور نہ ہی دشمنوں کی چالوں اور ان کی مکاریوں اور عیاریوں سے غافل رہے۔ اس کے باوجود دشمن ہر آن تاک میں لگا رہتا تھا کہ کسی طرح اس اسلامی سپاہی اور مجاہد راہ حق کا خاتمہ کردے۔ آخر کار وہ دن آہی گیا کہ آبان کی پہلی تاریخ کی پہلی رات کو تاریخ کے ظالموں کی سازشوں کا شکار ہوگئے اور 47/ سال کی عمر میں دار فانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑکر دار جاودانی کی جانب کوچ کرگئے۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ اتنی جلدی یہ شمع حیات گل ہوجائے گی اور امام خمینی (رح) کے گلستاں میں خزاں آجائے گی اور شجرہ طیبہ کو خشک کردیا جائے گا۔
آپ کا جسم اطہر خزاں کے پتوں کی طرح مصلی اور دعا کی کتاب پر پڑ رہا اور روح قفس عنصری سے نکل کر اپنے معبود حقیقی سے جاملی۔ مصطفی خمینی (رح) اس راہ میں شہید ہوئے جس کے مستقبل کا علم رکھنے تھے۔ ایسی راہ جو اس دنیا میں کامیابی یا شہادت پر تمام ہوتی ہے۔ انہوں نے بارہا اور بارہا اپنی راہ کے انجام کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ آزادی کی راہ میں لوگ مارے جائیں گے اور آخر کار پائیداری اور ثابت قدمی کی بدولت فتح و کامیابی نصیب ہوگی۔ سرخ شہادت کے طولانی سلسلہ میں تاریخ کے دفتر میں اتوار کے دن 23/ اکتوبر 1977ء مصطفی خمینی کی شہادت نے کردار ادا کیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید ہوگئی۔
آپ کی شہادت سے پہلے کچھ دیر کے لئے دو ایرانی نجف میں آپ سے ملاقات کرنے گئے تھے اور ان دونوں سے ایک نے آہستہ سے انھیں ہوشیار کرایا تھا کہ شاہی حکومت اپنے زوال اور نابودی سے پہلے کچھ لوگوں کو مارنا چاہتی ہے کہ ان میں سے ایک آپ ہیں۔ شہادت کی شب مصطفی خمینی بہت جلدی اپنے گھر چلے گئے تھے کیونکہ 12/ بجے آپ کے پاس کچھ مہمان آنے والے تھے۔ اتفاق سے اس رات، آپ کی بیوی بیمار تھیں اور حاج آقا مصطفی کی تاکید پر آرام کررہی تھیں اس لئے وہ متوجہ نہ ہوسکیں کہ مہمان کب آئے اور کب گئے اور کیا ہوا۔
اتوار کی صبح کو جب گھر کے خادم روزانہ کی طرح آپ کا ناشتہ لیکر آپ کے کمرہ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو کوئی جواب نہیں آیا، بلب جل رہا تھا اور کوئی جواب نہیں، دروازہ کھولا تو اسے معلوم ہوگیا کہ انہوں نے رات کا کھانا نہیں کھایا ہےاور کھانا اسی طرح رکھا ہوا اور آقا مصطفی دعا کی کتاب اور معلی معلی پر گرے ہوئے ہیں اور کوئی حرکت نہیں۔ جسم پر موجود علامتوں سے یہی اندازہ ہوا کہ آپ کی موت طبیعی نہیں ہے بلکہ کسی سازش کا حصہ ہے اور جسم پر زہر کے آثار نمایاں تھے۔ اس عزیز اور اسلام کے مجاہد ہر دل عزیز شخصیت کے مرنے سے زمانہ سوگوار اور اشکبار ہوا۔ بیٹے کی شہادت سخت ہوتی ہے۔ یقینا امام خمینی (رح) کے لئے یہ جانکاہ اور روح فرسا وقت تھا لیکن اس کے باوجود آپ کے عزم و ارادہ اور اسلامی تحریک کو آگے بڑھانے کے مشن میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا۔ امام نے اس میوہ دل اور آنکھوں کے نور کی شہادت پر آنسو نہیں بہائے اور دشمن کو صبر و تحمل سے شکست دی اور اس کی سازش کو ناکام بنادیا۔ دشمنوں کو معلوم تھا کہ آقا مصطفی پہاڑ کی طرح ان کے مقابلہ میں کھڑے ہیں اور ان کی دھمکیوں اور جلاوطنی کا ان پر کوئی اثر نہیں ہے۔ یہ کبھی اپنے اسلامی مشن سے باز آنے والے نہیں ہیں بلکہ رہتی سانس تک اس کو آگے بڑھاتے رہیں گے اور بڑھاتے رہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کا یہ مجاہد اپنی آخری سانس تک دشمنوں کے لئے ان کی آنکھ کا کانٹا بنارہا ہے۔ اسلام اور انسانیت کے دشمنوں کو گوارا نہ ہوا کہ اسلام کا سچا دوست اور انسانیت کا محافظ اس دنیا میں رہے لہذا انہوں نے اپنی ناپاک سازش سے زہر دے کر شہید کردیا۔