اربعین پیادہ روی کا فلسفہ
تحریر: حسین محمدی
اربعین کے موقع پر پیدل چل کر سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی زیارت ایک طویل تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس موقع پر سب سے پہلے عظیم صحابی حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری مدینہ سے کربلا پہنچے۔ اسی طرح مشہور روایت کے مطابق امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور ان کے ہمراہ 80 دیگر افراد بھی چہلم کے روز شام سے واپس مدینہ جاتے ہوئے کربلا پہنچیں اور انہوں نے حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری سے ملاقات بھی کی۔ یہ زیارت اربعین کا آغاز تھا جو بعد میں تمام ائمہ معصومین علیہم السلام اور شیعیان اہلبیت اطہار علیہم السلام کا وطیرہ بن گیا۔ روایت میں ہے کہ جب امام زین العابدین علیہ السلام قافلے کے ہمراہ کربلا پہنچے تو وہاں حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری بھی بنی ہاشم کے چند افراد کے ہمراہ موجود تھے۔ تمام افراد نے شدید گریہ و زاری کی اور صف ماتم بچھ گیا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا انتہائی دلخراش انداز میں بین کر رہی تھیں اور پکار پکار کر کہہ رہی تھیں: "وا اخاہ، وا حسیناہ، وا حبیب رسول اللہ و ابن مکہ و منی، وا ابن فاطمہ الزھراء، وا ابن علی المرتضی، آہ ثم آہ" اور یہ بین کرتے کرتے بیہوش ہو جاتیں۔
اسی طرح حضرت ام کلثوم بھی اپنے چہرے پر ماتم کرتیں اور کہتیں: "آج محمد مصطفی، علی مرتضی، فاطمہ زہرا دنیا سے چلے گئے ہیں۔" دیگر خواتین بھی بین کرنے کے ساتھ ساتھ ماتم کر رہی تھیں۔ عطیہ عوفی جو حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری کے ہمراہ کربلا آئی تھیں کہتی ہیں: "میں جابر ابن عبداللہ انصاری کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کیلئے نکلی۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر نہر فرات پر گئے اور غسل کیا اور احرام سے ملتی جلتی چادر اوڑھی۔ کپڑے پر عطر لگایا اور ہر قدم پر ذکر الہی پڑھ رہے تھے۔ جب وہ قبر مبارک کے قریب پہنچے تو مجھے کہنے لگے: "میرا ہاتھ قبر پر رکھو۔" جب میں نے ایسا کیا تو قبر پر ہی بیہوش ہو گئے۔ میں نے ان کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔ جب انہیں ہوش آئی تو انہوں نے تین بار کہا "یا حسین"۔ اس کے بعد کہا: "حبیب لا یجیب حبیبہ" اور پھر کہنے لگے: "کیسے جواب کی توقع رکھتے ہو جبکہ حسین اپنے خون میں نہا کر سو چکے ہیں اور ان کا سر بدن سے جدا کر دیا گیا ہے۔"
اس کے بعد قبر کے اردگرد دیکھتے ہوئے کہا: "سلام ہو آپ کی روحوں پر جو حسین کے ساتھ شہید ہو کر یہاں دفن ہو چکے ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکات ادا کی اور امر بالمعروف کیا اور نہی از منکر انجام دیا اور ملحدین اور کفار سے جہاد کیا اور آخری دم تک خدا کی عبادت کی۔" اس کے بعد کہنے لگے: "اس خدا کی قسم جس نے پیغمبر اکرم ص کو برحق مبعوث کیا ہم بھی آپ شہداء کے ثواب میں شریک ہیں۔" عطیہ کہتی ہیں: "ہم نے تو کچھ نہیں کیا جبکہ یہ افراد شہید ہوئے ہیں۔" جابر کہنے لگے: "اے عطیہ، میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا: "جو جس قوم سے محبت کرے گا انہی کے ساتھ محشور ہو گا اور جس قوم کے عمل کو پسند کرے گا ان کے عمل میں شریک ہو گا۔" اس کے بعد کچھ عرصے تک اربعین کی پیادہ روی فراموشی کا شکار رہی اور دوبارہ شیخ مرزا حسین نوری نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔ یہ بزرگ عالم دین عید قربان کے موقع پر 30 افراد کے ہمراہ نجف سے پیدل کربلا گئے۔ وہ ہر سال یہ پیادہ روی انجام دیتے رہے۔
علی ابن میمون صائغ امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا: "اے علی، قبر حسین علیہ السلام کی زیارت کرو اور یہ عمل ترک نہ کرنا۔" میں نے عرض کیا: "امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب کتنا ہے؟" آپ نے فرمایا: "جو بھی پیدل حسین علیہ السلام کی زیارت کرے گا خدا ہر قدم پر اس کیلئے ایک نیکی لکھ دے گا اور اس کا ایک گناہ بخش دے گا اور اس کا روحانی درجہ بڑھتا جائے گا۔ جب وہ زیارت کرے گا تو خداوند متعال دو فرشتوں کو اس کے ساتھ لگا دے گا جو اس کی نیکیاں لکھتے رہیں گے جبکہ برائیاں نہیں لکھیں گے۔ جب وہ الوداع کر کے واپس جانے لگے گا تو وہ فرشتے اسے کہیں گے: اے ولی خدا، تیرے گناہ بخشے گئے اور تو خدا، رسولخدا اور اہلبیت کے ساتھیوں میں سے ہو گیا۔ خدا کی قسم تو ہر گز جہنم کی آگ نہیں دیکھے گا اور آگ تجھے نہیں دیکھے گی اور تجھے نہیں جلائے گی۔" (کامل الزیارات، صفحہ 134)۔ اسی طرح معروف عالم دین اور عارف آیت اللہ العظمی بہجت اربعین کی پیادہ روی کے بارے میں فرماتے ہیں: "امام زمانہ عج ظہور کے بعد امام حسین علیہ السلام کے ذریعے دنیا والوں کو اپنا تعارف کروائیں گے لہذا ضروری ہے کہ اس وقت تک پوری دنیا والے امام حسین علیہ السلام کو پہچان چکے ہوں اور اس کام کیلئے اربعین کی پیادہ روی بہترین موقع ہے۔"