دشمنی حسین (ع) سے ہے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
محرم کا مہینہ آتے ہی ہر سو نواسہ پیغمبر امام حسینؑ کا ذکر شروع ہو جاتا ہے۔ پورے ملک میں فرش عزا بچھ جاتا ہے، خاندان پیغمبرﷺ کی مظلومانہ شہادت کے تذکرے ہر سو ہونے لگتے ہیں۔ گلیوں اور بازاروں سے یاحسینؑ یاحسینؑ کی آوازیں آنے لگتی ہیں، دس محرم تک پورے ملک کو ایک سوگواری اپنی لپٹ میں لے لیتی ہے۔ کیا شیعہ؟ کیا سنی؟ کیا ہندو؟ کیا مسیحی؟ ہر انسان امام حسینؑ کے غم میں مغموم ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں عاشورا مذہب سے بلند ہو کر منایا جاتا ہے، ملتان اور جھنگ سمیت ملک میں بہت سے جلوس اہلسنت برادران نکالتے ہیں، اسی طرح سندھ میں ہندو جلوس عزاء برآمد کرتے ہیں۔ یہ روایت بہت قدیم ہے، خواجہ معین الدین چشتی اجمیر کی درگاہ اجمیر شریف سے نکلنے والا جلوس عزاء ہندوستان بھر میں معروف ہے، جن کی اپنی روایات ہیں۔
جیسے ہی محرم شروع ہوتا ہے، ہم مغموم ہوتے ہیں، لوگ ہمیں غیر ضروری مباحث میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یزیدی فکر کے حامل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ ذکر شاہ کو کم کر دیں گے اور حسینیوں کی توانائیاں بٹی رہیں گی۔ سوشل میڈیا پر کچھ چیزیں بار بار نظروں سے گذریں، چاہا ان کا تھوڑا سا تجزیہ کر لیا جائے، دیکھا جائے کہ ان کی بنیاد کیا ہے؟ کیا یہ واقعی سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ان کی بنیاد فقط ایک چھوٹے سے گروہ کا تعصب ہے، جو خاندان رسالتﷺ سے ظاہری نفرت کا اظہار تو نہیں کرسکتا، مگر دوسرے مسائل کے ضمن میں الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ عبادت ہے تو اسے عبادتخانے تک محدود ہونا چاہیئے۔ یہ فارمولہ کہاں سے تسلیم شدہ امر ہے کہ عبادت ہر صورت میں عبادتخانے میں کی جائے؟ یا چلو یہ فارمولہ طے کر لیتے ہیں کہ جو بھی عبادت ہوگی وہ ہر صورت میں عبادتگاہ کے اندر ہوگی، جہاد ایک عبادت ہے، آج کے بعد وہ صرف عبادتگاہ کے اندر ہی ہونی چاہیئے۔ ویسے تو آپ نے جہاد کے نام پر جو فساد مچایا ہے، اس میں چرچوں، مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے کیے ہیں، جو عبادتگاہیں ہی ہیں۔ ہر عبادت عبادتخانے میں نہیں ہوتی، حج عبادت ہے اور میدانوں اور پہاڑوں پر، گلیوں میں، غرض چاردیواری سے باہر ہوتی ہے، اگر اہل مکہ کل کہیں کہ اسے چاردیواری کے اندر کرو تو آپ کیا فرمائیں گے۔؟؟؟
ایک اور سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اس دوران کاروبار کا شدید نقصان ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ تین دن پہلے بازار بند کرانا، پورے پورے شہر کو سیل کرنا، یہ عزاداری کو محدود کرنے کی سازش ہے۔ بازار تین دن پہلے بند ہونے اور شہر بلاک کیے جانے کی وجہ سوال اٹھانے والے گروہ کے فکری ہم نواوں کے حملے ہیں، جس کی وجہ سے یہ سب کرنا پڑتا ہے اور اس بدامنی نے معیشت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ملکی معیشت کو نقصان والے غبارے سے تو کامران خان کی ایک تحقیقی رپورٹ نے ہوا نکال دی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ عاشورا پاکستانی معیشت کو آکسیجن مہیا کرتا ہے۔ مفصل رپورٹ یو ٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے۔
ایک روشن فکر نے لکھا نبی اکرمﷺ نے راستے تنگ کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہاں تو راستے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے، ان کا تعلق ایسی سیاسی جماعت سے ہے، جو ملک بھر میں دھرنے دینے کے حوالے سے مشہور ہے۔ ان سے عرض کیا کہ کیا یہ حدیث صرف محرم کے جلوسوں کے لیے ہے یا آپ کی سیاسی جماعت کے دھرنوں کو بھی شامل ہے؟ اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ عجیب بات ہے، الٹی منطق اختیار کی جاتی ہے، کہا جاتا ہے آپ فلاں ملک کی طرح جلوس نکالیں، یوں کریں اور یوں نہ کریں۔ جناب ہم نے کبھی آپ سے کہا کہ آپ اپنی کسی بھی مذہبی سرگرمی کو وہاں کریں اور ایسے کریں یا اس ملک کی طرح کریں؟ ہم اپنی مذہبی سرگرمیوں کے بارے میں بہتر جانتے ہیں کہ ان کو کیسے اور کہاں انجام دینا ہے۔ ہمارا عزاداری کا سینکڑوں سال کا برصغیر کا کلچر ہے، اسے ہم نے اسی طرح منانا ہے۔
ایک ہی سٹوری میرا بیٹا، بھتیجا، ابو یا کوئی عزیز دل کا مریض تھا، اسے ہسپتال لے جانا تھا، شدید تکلیف میں تھا، مگر جلوس کی وجہ سے خوار ہوگئے۔ ایسا ممکن ہے کہ کہیں ایک آدھ بار ہوا ہو، جو کہ انتظامیہ کی نااہلی ہے، انہیں متبادل راستوں کا انتظام کرنا چاہیئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، جلوس عزاء ساہیوال کے تجارتی مرکز کے سامنے سے گزر رہا ہوتا تھا، دوکانیں کھلی ہوتی تھی، ساتھ سائیکل وغیرہ والے گزر رہے ہوتے تھے، پولیس والے انہی دکانوں میں بیٹھ کر گپ شب لگا رہے ہوتے تھے۔ ہماری بہادر افواج ان تکفیری دہشتگردوں کا جس تیزی سے صفایا کر رہی ہیں، ان شاء اللہ عنقریب یہ ماحول دوبارہ بحال ہوگا۔
ابھی دیکھ رہا تھا کہ مسیحیوں کا کوئی سالانہ میلہ تھا، انہوں نے اس سال محرم میں آنے کی وجہ سے اسے نہ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک بار ہندووں کا خوشی کا تہوار محرم میں آگیا تو مجھے یاد ہے کہ سندھ کے ہندووں نے کہا تھا کہ ہم اس سال اسے نہیں منائیں گے اور امام حسینؑ کی عزاداری میں شریک ہوں گے۔ نیوریاک، اوسلو، لندن اور ٹورنٹو میں رہنے والے ملحد امام حسینؑ کے جلوس کے خلاف نہیں بولتے بلکہ جب کربلا کی دلسوز کہانی بتائی جاتی ہے تو شریک عزا ہو جاتے ہیں۔ کتنے ہندو ہیں جو حسینؑ کے ذاکر ہیں، کتنے سکھ ہیں، جو حسینؑ کے عاشق ہیں۔ جلوس عزاء پر لندن کے ملحد، نیورک کے مسیحی، اوسلو کے یہودی، چندی گڑھ کے سکھ اور دلی کے ہندو کو کوئی اعتراض نہیں ہے، مگر وطن عزیز پاکستان میں اسلام کے کچھ ٹھیکیداروں کو اعتراض ہے، ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ جلوس کا نہیں ہے، یہ دشمنی حسینؑ کی ہے۔
اب تو یہ لوگ دس محرم کو شادی کی تقریبات رکھنے کی مہم چلا رہے ہیں، عنوان دیا ہے کہ بدعت کا خاتمہ کرنا ہے۔ مجھ سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ کے ہاں دس محرم کو شادی حرام ہے کیا؟ عرض کیا فقہ جعفریہ میں دس محرم کو شادی اسی طرح جائز ہے، جیسے ایک جوان کے بھائی، عزیز و اقارب اور بیٹے قتل کر دیئے جائیں، لاشیں اس کے صحن میں رکھی ہوں، جیسے اس کے لیے شادی کرنا جائز ہے، دس محرم کو بھی شادی کرنا ایسے ہی جائز ہے۔ جناب ہمیں معلوم ہے کہ مسئلہ شادی کا نہیں مسئلہ حسینؑ سے دشمنی کا ہے۔ جس کے باپ اور نانا کی تلوار نے ان کے بہت سے ہیروز کی گردنیں اڑا دی تھیں۔ ویسے عجیب بات ہے، کچھ لوگ جلوس نکال کے کہتے ہیں، جلوس ملک کے لیے نقصان دہ ہیں، ان پر پابندی لگائی جائے، اب بندہ ان کی سادگی پر کیا کہے؟ ہمیں علم ہے کہ مسئلہ نقصان کا نہیں ہے، دشمنی حسینؑ کی ہے۔