امام خمینی(رح) نے اپنی عدم موجودگی میں لوگوں کو کس طرح لڑنے کے لئے تیار کیا؟
امام (رہ) نے خود محاذ آرائی کا آغاز کیا وہ خود نمونۂ عمل بنے اور اس کے بعد لوگوں نے اسے مختلف پہلوؤں منجملہ قیدی ہونے، اذیت و پریشانیوں کا سامنا کرنے اور شہادت پر فائز ہونے وغیرہ میں جاری رکھا۔
جماران خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت امام (رہ) نے ایسے شاگردوں کی تربیت کی جنہوں نے ان کی جلاوطنی اور گرفتاری کے بعد اس راستہ کو دوام بخشا۔ انہوں نے اپنے استاد سے سیکھا تھا کہ کیا کرنا چاہئے اور ہمیں کون سا راستہ طے کرنا چاہئے، استاد مطہری، ڈاکٹر بہشتی، موسی صدر، عظیم الشان رہبرِ انقلاب، ہاشمی رفسنجانی اور بہت سے دیگر شاگردوں نے امام (رہ) کی جلاوطنی میں لوگوں کی ہدایت اور انہیں راستہ دکھانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔ البتہ انہوں نے زیرِ نظر امام (رہ) اس راستہ کو دوام بخشا۔ امام (رہ) کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے مشکل طریقہ سے محاذ آرائی کا لوگوں سے مطالبہ نہیں کیا یعنی انہوں نے شروع سے ہی لوگوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ گولیوں اور ٹینکوں کے سامنے چلے جائیں لہذا انہوں نے لوگوں سے پہلے اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے، مظاہرے برپا کرنے، پوسٹر لگانے اور اس کے بعد مسلحانہ محاذآرائی کا مطالبہ کیا۔ امام (رہ) ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگوں کو شروع سے ہی سختیوں و مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے۔
۱۵ خرداد کو جب امام (رہ) نے سنا کہ کچھ افراد کو شہید کر دیا گیا ہے تو فرمایا: میری کمر ٹوٹ گئی۔ یا ۱۷ شھریور جمعہ کے دن جب حکومت نے فوجی حکومت کا اعلان کیا تو امام (رہ) نے لوگوں سے کہا کہ ایک دو دن کے لئے فوجی حکومت کو تحمل کر لیں اور لوگ اپنے گھروں چلے جائیں لیکن عصر کے وقت امام (رہ) کو اطلاع ملی کہ اب لوگوں نے اپنا راستہ پا لیا ہے اور وہ ہرگز اس راستہ سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اور اب صورت حال یہ ہے کہ انہوں نے فوجی حکومت کو شکست دے دی ہے اور مقابلہ کے میدان میں آ چکے ہیں حتی بعض شہید بھی ہو گئے ہیں۔ امام (رہ) کا ایک طریقہ یہ تھا کہ وہ عورتوں کو میدان مقابلہ میں لانا چاہتے تھے۔
لہذا انہوں نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا: ملک کی آدھی آبادی عورتیں کی ہے اور انہیں بھی محاذ آرائی میں شرکت کرنا چاہئے اور مردوں کو انہیں منع کرنے کا حق نہیں پہونچتا۔ عورتیں میدان مقابلہ میں داخل ہوئیں اور اس کے دو نتیجہ ظاہر ہوئے: ایک کمیّت کے اعتبار سے کہ آبادی تین گناہ بڑھ گئی کیونکہ عورتیں اپنے بچوں کو ساتھ لاتی تھیں اور دوسرے کیفیت کے اعتبار سے کہ اب تک اگر بعض عورتیں گھر میں بیٹھ کر اپنے شوہروں اور بچوں کو اس قسم کی جنگ میں داخل ہونے سے منع کر رہی تھیں وہ خود بھی میدان میں آ گئیں اور اس کے نتیجہ میں وہ اپنے بچوں کو تشویق دلانے لگیں نیز ان مردوں کے لئے بھی میدان مقابلہ میں قدم رکھنا آسان ہو گیا جو مشکلات و سختیاں محسوس کر رہے تھے لہذا جب انہوں نے مشاہدہ کیا کہ عورتیں میدان میں نکل چکی ہیں تو ان کی غیرت بھی جوش میں آئی اور وہ بھی میدان میں داخل ہو گئے۔ عورتوں نے بھی محاذ آرائی کی تمام سختیوں اور مشکلوں کو آسانی سے برداشت کر لیا جب انہیں معلوم ہو گیا کہ امام (رہ) نے انہیں حیثیت اور عزت بخشی ہے اور انہوں نے اس مسئلہ کے بارے میں اس قدر خوشحالی کا اظہار کیا کہ انہوں نے محاذ آرائی کے زمانہ کی سختیوں کو نہایت آسانی سے برداشت کر لیا انہیں محسوس ہوگیا کہ وہ جنگ کی حالت میں ہیں اور جنگ کے نتیجہ میں سختیاں بھی ہیں جنہیں ہمیں برداشت کرنا چاہئے، تیل و پٹرول نہیں تھا ذرائع کی کمی تھی لہذا عورتیں زیادہ تر بچوں کی فکر میں تھیں رات کی تاریکی میں اپنے اوپر اوڑھنے، بچھونے کے تمام ذرائع بچوں کے حوالے کر دیتی تھیں اور انہیں سب سے زیادہ اس چیز کی خوشی تھی کہ ان پر توجہ کی گئی ہے اور وہ میدان مقابلہ میں حاضر ہیں۔