حضرت امام محمد تقی (ع) کو شہید کرنے کی شازس کے اسباب
مامون اس بات کی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ شیعوں کے دلوں سے امام علی رضا (ع) کی محبت کو نکال سکے اور نہ ہی اس کے لئے یہ ممکن تھا کہ آپ کو اجازت دے کہ اپنی ماتحت حکومت کے پایتخت سے دور جائیں؛ لہذا اس نے آپ (ع)کو قتل کرنے کا پلان بنایا لیکن امام رضا (ع)کی شہادت کے بعد حضرت امام محمد تقی (ع)کے درجہ امامت پر فائز ہونے کی بنا پر اس کی مشکلوں میں کوئی کمی نہیں آئی؛ چونکہ عالم اسلام دیکھ رہا تھا کہ شیعوں کی امامت کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور امامت کی تمام ذمہ داریاں ایک کمسن شخص کی ہدایت میں انجام پا رہی ہیں، اور امام رضا (ع)کی شہادت کے سلسلہ میں سب کی نگاہیں مامون کی جانب تھیں اور سب اسی کو قاتل جانتے تھے۔ اس طرح حضرت امام محمد تقی (ع)مامون کے شر سے محفوظ رہے اور آپ(ع) کوکوئی گزند نہ پہونچی۔
البتہ مامون اپنی بیٹی ام فضل کے نکاح کے ذریعہ اپنے مقصد تک پہونچنے میں کامیاب رہا؛ اس لئے کہ اس طرح وہ امام (ع)کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ مامون کے بعد والے حاکم نے بھی مامون کی پیروی کرتے ہوئے امام (ع)کو تحت نظر رکھا اور امام (ع)سے نجات حاصل کرنے کے فراق میں تھا؛ چونکہ آپ(ع) بھی اپنے والد محترم کی طرح ستمگروں کو دھول چٹانے والے اور ھل من مبارز کا نعرہ بلند کرنے والے تھے، اس کی قدرت اور حکومت کے لئے سرسخت رقیب کی حیثیت سے شمار کیے جاتے تھے۔
حضرت امام محمد تقی (ع)کی امامت اور ہدایت الہی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی لیاقت اور صلاحیت، ان ایام میں سب پر آشکار ہوچکی تھی؛ لیکن آپ(ع) کی سیاسی موقعیت اور معاشرہ میں آپ کا رسوخ اور آپ (ع) کی وسیع سرگرمیاں معتصم اور اس کے کارندوں کی نظروں سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں، اسی لئے عباسی خلیفہ نے آپ(ع) کو بغداد طلب کرلیا۔
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام محرم ۲۲۰ھ یعنی جس سال شہادت پائی اسی سال بغداد تشریف لائے۔
معتصم ظاہری اعتبار سے حضرت امام تقی (ع)سے نہایت عزت و احترام سے پیش آیا، آپ(ع) اور ام فضل کے لئے تحائف بھیجے؛
لیکن اندربغض و کینہ رکھے ہوئے تھا، اور فرصت تلاش رہاتھا تاکہ جو چال مامون نے امام رضا (ع)کے لئے چلی تھی امام جواد (ع)کے لئے انجام دے۔ حضرت محمد تقی (ع)کا سماجی اثر و رسوخ لوگوں کے درمیان خاص طور پر بغداد اور عباسی حکومت کے پایتخت میں کافی پھیل چکا تھا، اور یہ اثر صرف عام لوگوں میں محدود نہیں تھا بلکہ بعض درباریوں کےدلوں میں رسوخ کرچکا تھا اورانہیں مسلمانوں کے حقیقی ہادی و رہبر اور حاکم کا شیدائی بنادیا تھا۔
معتصم نے پہلے کچھ درباریوں اور وزیروں کو طلب کیا اور ان سے کہا: ’’میرے سامنے محمد بن علی کے خلاف جھوٹی گواہی دو اور تحریری صورت میں رپورٹ پیش کرو کہ وہ حکومت کے خلاف خروج کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
اس نے اس سازش کے تحت حضرت امام تقی (ع)کو دربار میں طلب کیا اور کہا: ’’ تم چاہتے تھے میرے خلاف قیام کرو!؟‘‘ امام (ع)نے فرمایا: ’’ خدا کی قسم جو چیز تو کہہ رہا ہے اس میں سے کچھ بھی انجام نہیں دیا ہے‘‘۔ معتصم نے کہا: ’’فلاں فلاں نے تمہارے خلاف گواہی دی ہے۔‘‘
پھر ان کو طلب کیا گیا اور انہوں نے کہا:’’ جی ہاں، ہم نے یہ خطوط آپ کے بعض غلاموں سے حاصل کئے ہیں۔‘‘ امام (ع)جو مہمان خانہ میں تشریف فرما تھے انہوں اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا: ’’بارالہا! اگر یہ لوگ مجھ پر جھوٹا الزام لگارہے ہیں، تو انہیں عذاب میں مبتلا کردے۔‘‘ اچانک ہال کے در و دیوار ہلنے لگے؛ اس طرح سے کہ ہر ایک اپنی جگہ سے اچھلتا اور زمین پر گر پڑتا! معتصم نے وحشت کے عالم میں امام کی طرف رخ کیا اور کہا: ’’اے فرزند رسول خدا ! میں نے جو کہا اس پر شرمندہ ہوں! خدا سے دعا کردیجئے ہال کو اپنی جگہ ٹھہرادے!‘‘ آپ(ع) نے فرمایا:’’خدایا اسے روک دے تو جانتا ہے وہ تیرے اور میرے دشمن ہیں‘‘ امام کی دعا سے حالات اپنے معمول پر آگئے۔
امام جواد (ع)کی کامیابی اور معتصم کی رچی ہوئی سازش کے ذلت آمیز شکست نے عباسی حاکم کے دل میں فرزند رسول خدا (ص) کے بغض اور کینہ کو مزید بڑھا دیا اور آخری سازش کے عزم و ارادہ کو پکا کردیا۔