امام خمینی (رح) کی اخلاقی اور تربیتی نصیحتیں
موت سے خوفزدہ نہ ہونا
اگر آپ نے اپنا محاسبہ کیا، اپنے باطن کو پاکیزہ بنایا، اپنی باطنی طہارت کی، اگر آپ نے اپنے اعمال و کردار کو قرآن کریم کے مطابق کیا، اسلامی احکام کی روشنی میں انجام دیا۔ اگر آپ نے اپنے اخلاق کو قرآن اخلاق بنایا، اگر آپ نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا تو پھر آپ کو کسی چیز کی پرواہ نہیں ہونی چاہیئے۔ مرنا بہت آسان ہے۔ کوئی اہم بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب کے مولا و آقا امیرالمومنین حضرت علی بن ابیطالب (ع) فرماتے تھے کہ مجھے موت سے اسی طرح انس واور لگاؤ ہے جس طرح بچہ ماں کے پستان سے لگاؤ رکھتا ہے۔ کیونکہ آپ سمجھ چکے تھے کہ دنیا کیا ہے اور دنیا کے ماوراء کیا ہے۔ آپ سمجھ چکے تھے کہ موت کا کیا مطلب ہے؟ موت، زندگی ہے۔ (صحیفہ امام، ج 6، ص 311)
موت کا مسئلہ اور اس کا یقین انسانوں کے نزدیک بہت ہی قابل توجہ مسائل میں رہا ہے اور ہے۔ اس میں شک نہیں کہ انسان کا انجام موت ہے۔ لیکن اس پر قلبی عقیدہ رکھنا اور اس عظیم واقعہ کے لئے آمادگی ایسے مسائل کا جز ہے جس کی طرف انسان بہت کم توجہ دیتا ہے۔ جبکہ ہماری روایات میں اس کی طرف بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے، قبروں پر حاضر ہونا، تشییع جنازہ اور مردوں کے رسومات کی اس مسئلہ کی یاددہانی کے لئے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم میں بہت ساری آیات نازل ہوئی ہیں جو اس موضوع کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے۔
حضرت امام خمینی (رح) نے اخلاقی، عرفانی اور روحانی نقطہ نظر سے موت اور مرنے کے بعد کے مسئلہ کے بارے میں غور وفکر کیا ہے اور کچھ مقامات پر ان نکات کی یاد دہانی کرائی ہے۔ منجملہ آپ کا تطہیر باطن اور تزکیہ نفس، موت اور عدم خوف سے متعلق بیان نقل ہوا ہے۔ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
اب سے اس کی فکر کرو، جوانی سے اس کی فکر کرو، اس وقت جو بھی قدم اٹھاتے ہو وہ موت اور قبر کی طرف قدم ہے۔ آپ اس مقام سے نزدیک ہوتے جارہے ہیں، آپ کی عمر کا گذرا ہوا ہر لمحہ قبر کی طرف لے جارہا ہے، جہاں آپ سے سوال ہوگا، جہاں پر آپ جواب دہ ہوں گے اس کی فکر کرو، موت سے نزدیک ہونے کا معاملہ ہے۔ (صحیفہ امام، ج 2، ص 40)
کاش انسان اپنے وجود اور اپنے خالق کے بارے میں غور کرتا اور یہ کہ ہم خالق منان کی کیسی مخلوق ہیں اور خداوند سبحان نے ہمیں کس لئے پیدا کیا ہے۔ خداوند عالم نے ہم سے کیا مطالبہ کیا ہے۔ دنیا میں ہمارے آنے کا مقصد کیا ہے؟ دنیا میں ہم کتنے دن ہیں، یہاں ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔ خداوند عالم نے ہماری ہدایت اور نجات کے لئے انبیاء کا سلسلہ قائم کیا، قرآن جیسی عظیم کتاب بھیجی، جس میں اخلاق، احکام، تربیت اور دنیا میں زندگی گذارنے، کھانے، پینے اور مرنے جینے سب کے احکام اور قوانین موجود ہیں۔ سب سے بڑی چیز ہمیں عقل کی دولت دی تا کہ ہم اپنی عقل سے اچھائی اور برائی کو سمجھیں اور نیک راستوں پر چلیں، برے راستوں سے پرہیز کریں۔ اگر انسان مومت کی حقیقت کو سمجھ لے اور موت کو یاد کرے جس طرح اولیائے الہی کیا کرتے تھے تو سارا مسئلہ آسان ہوجائے گا اور آخرت کی منزلیں دشوار نہیں رہ جائیں گی، لیکن افسوس کہ ہم انسان سب کچھ یاد کرتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں، اس کے عواقب و انجام سے ڈرتے بھی ہیں مگر موت سے بے خبر اور غافل ہیں۔