ماہ شوال میں پیغمبر اکرمؐ سے مربوط رونما ہونے والے واقعات پر سرسری نگاہ

ماہ شوال میں پیغمبر اکرمؐ سے مربوط رونما ہونے والے واقعات پر سرسری نگاہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ افراد کو اپنی عالمی رسالت کی غرض سے حبشہ کی جانب روانہ کیا وہاں کے بادشاہ " نجاشی" نے ان کا اچھا استقبال کیا اور ان کی دلجوئی کی اور اس کے نتیجہ میں جعفر طیّار کے نام سے مشہور جعفر بن ابی طالب کی سرپرستی میں حشبہ کی جانب ایک اور گروہ کو بھیجا گیا۔

ماہ شوال میں پیغمبر اکرمؐ سے مربوط رونما ہونے والے واقعات پر سرسری نگاہ

حبشہ کی جانب مسلمانوں کی دوسری ہجرت (ماہ شوال میں بعثت کے پانچویں سال)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ افراد کو اپنی عالمی رسالت کی غرض سے حبشہ کی جانب روانہ کیا وہاں کے بادشاہ " نجاشی" نے ان کا اچھا استقبال کیا اور ان کی دلجوئی کی اور اس کے نتیجہ میں جعفر طیّار کے نام سے مشہور جعفر بن ابی طالب کی سرپرستی میں حشبہ کی جانب ایک اور گروہ کو بھیجا گیا۔

بعثت کے دسویں سال ماہ شوال کی ۱۱ تاریخ کو سرزمین طائف کی جانب رسول اسلامؐ کی روانگی

رسول اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رحمتوں و مہربانیوں کے پیغمبر تھے لہذا انہوں نے خود ارادہ کیا کہ وہ خود ارد گرد کے علاقوں میں خدا کی جانب لوگوں کو دعوت دیں اور در حقیقت اسلام کی تبلیغ کریں۔ انہوں نے طائف کی جانب روانگی کا ارادہ کرتے ہوئے اس کا رخ کیا دوسری جانب سے حضرت ابو طالبؑ کی وفات کے نتیجہ میں کفّار مکہ کی جانب سے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کافی دباؤ تھا کیونکہ وہی آپؐ کے اکیلے حامی تھے۔ طائف کی جانب آپؐ کی روانگی کا ایک مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی سکونت کے لئے کسی دوسری جگہ کی تلاش کی جائے لیکن جب آپؐ طائف پہونچے تو طائف کے مشرکین نے اپنے بچوں کے ہاتھوں میں پتھر اور کوڑے کرکٹ دے کر آپؐ کا استقبال کیا۔

جناب حمزہ سید الشہداء نامی سریّہ[1] ( ہجرت کے پہلے سال ماہ شوال میں )

اسلام ایک ایسا دین ہے کہ بعض کفّار و مشرکین نے اس کا استقبال تلوار اور طاقت سے کیا کیونکہ وہ اسلام کی جڑوں کو مٹانے کی کوشش میں تھے۔ پیغمبر اسلامؐ نے ہجرت کے آٹھویں سال ماہ رمضان المبارک میں کچھ افراد کو اسلامی بہادروں کی سرپرستی میں تلوار کا سہارا لیتے ہوئے ارد گرد روانہ کیا تا کہ ندائے اسلام سب کے کانوں سے ٹکرائے ان افراد یا ان گروہوں میں سب سے پہلا گروہ آپؐ کے چچا جناب حمزہ بن عبدالمطلب کی سرپرستی میں دریائے سرخ کے اطراف میں روانہ کیا گیا اور تیس آدمی جناب حمزہ کے ساتھ روانہ کئے گئے راستے میں ابو جہل کے تین سو افراد پر مشتمل کاروان کا سامنا ہوا لیکن دونوں گروہوں کے درمیان جنگ رونما نہیں ہوئی۔

عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب نامی سریّہ ( ہجرت کے پہلے سال ماہ شوال میں )

جناب حمزہ اور ان کے شجاع و دلاور ساتھیوں کی روانگی کے نتیجہ میں مدینہ خالی ہوجانے سے مشرکین مکہ کی جانب سے مدینہ پر حملہ میں شدت آ گئی۔ پہغمبر اسلامؐ نے عبیدہ بن حارث کی سرپرستی میں مہاجرین میں سے ساٹھ یا اسّی افراد پر مشتمل ایک گروہ کو  مکہ کی جانب روانہ کیا جس کا "شنیۃ المرۃ" نامی مقام پر مشرکین قریش سے سامنا ہوا لیکن ان میں کسی قسم کی جنگ رونما نہیں ہوئی صرف "سعد بن وقاص" نے اپنی کمان سے ایک تیر چلایا جو اسلام میں سب سے پہلے تیر کے نام سے مشہور ہے۔

قرقرۃ الکدر نامی جنگ ( ہجرت کے دوسرے سال ماہ شوال میں )

پیغمبر اسلامؐ کو خدا کی جانب سے وحی ہوئی کہ قبیلۂ "بنی سلیم" اور "بنی غطفان" کے کچھ مشرکین مل کر مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کو مٹانے کا ارادہ  کر رکھا ہے لہذا پیغمبر اسلامؐ کو ان کے خلاف جنگ کا حکم دیا گیا آپؐ نے اپنے چچا زاد اور با وفا صحابی حضرت علی علیہ السلام کو بلا کر ان کے ہاتھ میں پرچم دیا اور خود بھی دو سو افراد پر مشتمل لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے اور مدینہ سے باہر " قرقرۃ الکدر" نامی مقام پر مشرکین کا سامنا ہوا۔

غزوۂ قینقاع (ہجرت کے دوسرے سال ماہ شوال کی پندرہویں تاریخ )

ابھی جنگِ "قرقرۃ الکدر" کے کچھ ہی دن گذرے تھے کہ ایک اور جنگ کا آغاز ہو گیا۔ بنی قینقاع کے یہودیوں نے پیغمبر اسلامؐ کے خلاف جنگ کا ارادہ کر لیا جو بہت شجاع اور دلیر مانے جاتے تھے۔ انہوں نے پیغمبر اسلامؐ کے ساتھ پیمان باندھا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہرگز نہیں لڑیں گے لیکن انہوں نے اپنا پیمان توڑ دیا کیونکہ وہ آئے دن اسلام و مسلمانوں کی طاقت کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ پیغمبر اسلامؐ نے ان کا محاصرہ کیا اور انہیں شکست و فرار پر مجبور کر دیا اور انہوں نے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے شام میں پناہ لی۔

قریش کی جنگی کمیٹی کی اطلاع (ہجرت کے تیسرے سال ماہ شوال کی چوتھی تاریخ )

جنگ بدر میں مسلمانوں سے یقینی شکست کے بعد قریش اپنے دلوں کو تسلی دینے کے درپے تھے کہ کس طرح سے سینہ میں لگے زخموں کو بھرا جائے، انہوں نے ایک اجلاس بلایا اور اس میں ایک اور جنگ کے سلسلہ میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ پیغمبر اسلامؐ کے چچا جناب عباس جنہوں نے اس وقت تک اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اس اجلاس کے مضمون سے با خبر ہوئے اور انہوں نے یہ خبر مدینہ میں پیغمبر اسلامؐ کو پہونچا دی۔

فوجی کمیٹی کی تشکیل ( ہجرت کے تیسرے سال ماہ شوال کی پانچویں تاریخ )

جب پیغمبر اسلامؐ کے چچا جناب عباس نے آپؐ کو قریش کی جنگی کمیٹی کے سلسلہ میں مطلع کیا تو آپؐ نے بھی اپنے اصحاب کے ساتھ اپنے دفاع کے بارے میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا۔

احد کی جانب لشکر کی روانگی ( ہجرت کے تیسرے سال ماہ شوال کی چھٹی تاریخ )

پیغمبر اسلامؐ کی جانب سے منعقد کئے گئے اجلاس کا آخری فیصلہ یہ طے پایا کہ مشرکین کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا دفاع کیا جائے، بعض کا کہنا تھا کہ مدینہ میں رہ کر ان کے خلاف جنگ لڑی جائے لیکن کچھ کا کہنا تھا کہ لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے مدینہ سے باہر جنگ کی جائے بہر حال آخری فیصلہ یہ ہوا کہ مشرکین کا مقابلہ کوہ احد کے پاس کیا جائے اور اسلامی لشکر نے ایک ہزار افراد پر مشتمل لشکر کے ساتھ احد کا رخ کیا اور وہاں جنگ لڑی۔

جنگ احد ( ہجرت کے تیسرے سال ماہ شوال کی ساتویں تاریخ )

ماہ شوال کی ساتویں تاریخ کو صبح جنگ کا آغاز ہو گیا اور جنگ احد نہایت ہی سخت و مشکل جنگ تھی اور اس میں مسلمانوں کا جانی و مالی کافی نقصان ہوا جس کا سبب بعض مسلمانوں کی غفلت اور دنیا پرستی تھا اور انہوں نے غنائم جنگی اکٹھا کرنے کی غرض سے اپنی پوسٹ چھوڑ دی جس کے نتیجہ میں دشمنوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر حملہ کر دیا اور بہت سے مسلمانوں کو خون و خاک میں ملا دیا اس جنگ میں تقریبا سات سو مسلمان شہید ہو گئے اور کفّار و مشرکین میں سے بھی تین ہزار افراد کی ہلاکت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

سورج پلٹنے کا واقعہ ( ہجرت کے تیسرے سال ماہ شوال کی پندرہویں تاریخ )

پیغمبر اسلامؐ نے اس دن نماز ظہر پڑھائی کیونکہ انہیں دو نمازوں کو تھوڑے فاصلہ سے ادا کرنے کی عادت تھی لہذا انہوں نے تھکاوٹ دور کرنے کی غرض سے اپنا سر حضرت علیؑ کے زانوں پر رکھا اور تھکاوٹ کی وجہ سے ان پر نیند طاری ہوگئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ غزوۂ حمراء الاسد ٹھیک ایک دن پہلے یعنی ماہ شوال کی چودھویں تاریخ کو رونما ہوا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے انہیں بیدار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور نماز عصر کی فضیلت کا وقت ہاتھ سے نکل گیا لہذا جب پیغمبر اسلامؐ بیدار ہوئے تو آپؐ نے بارگاہ الہی میں سورج پلٹ جانے کی دعا کی تاکہ وہ نماز عصر اپنے وقتِ فضیلت میں ادا کر پائیں۔

جنگ خندق (ہجرت کے پانچویں سال ماہ شوال کی سترہویں تاریخ )

کفّار اور بالخصوص یہودیوں کے لئے مسلمانوں کو تحمل کرنا کافی مشکل ہو چکا تھا اور وہ ہرگز عربی قبائل کی جانب سے اسلام کی جانب مائل ہونے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے اسی وجہ سے تقریباً چوبیس ہزار پر مشتمل لشکر لے کر یہودیوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا، دشمنوں کی تعداد کا مشاہدہ کرنے کے بعد جناب سلمان فارسی نے خندق کھودنے کی رائے دی تا کہ دشمنوں کی طاقت کو کم کیا جائے اور خندق کو پانی سے بھر دیا جائے۔ اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی بہادری سبب بنی کہ پیغمبر اسلامؐ ان کی شان میں یہ فرمائیں: ضَرْبَةُ عَلیًّ یَوْمَ الْخَنْدَقِ أفْضَلُ مِنْ عِبادَةِ الثقلینِ" خندق کے روز علیؑ کی ضربت انسانوں و جنوں کی عبادت پر بھاری ہے۔ محاصرہ اور جنگ طولانی ہو گئی اور سب کو تھکاوٹ کا محسوس ہونے لگی یہودیوں کے درمیان " عمرو بن عبدود" نامی ایک پہلوان تھا وہ اپنا گھوڑا خندق کے اس پار لانے میں کامیاب ہو گیا وہ بہت بہادر انسان تھا اور اس نے کسی جنگ میں اپنے حریف سے شکست نہیں کھائی تھی لیکن حضرت علیؑ نے اسے واصل جہنم کیا  اور اس کی شکست دشمنوں کے دلوں میں جذباتی کمزور کا سبب بنی اور وہ راتوں رات فرار ہو گئے۔

عبداللہ بن رواحہ نامی سریّہ (ہجرت کے ساتویں سال ماہ شوال میں )

اس جنگ میں پیغمبر اسلامؐ نے عبداللہ بن رواحہ کو خیبر میں موجود دشمنوں کے سلسلہ میں مطلع ہونے کی غرض سے روانہ کیا کہ وہ رسول اسلامؐ کے پیغام کو قبول کریں جو اسلام قبول کرنے پر مبنی تھا ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جائیں، عبداللہ بن رواحہ اپنے ساتھ تیس افراد کو لے کر روانہ ہوئے۔

قبیلۂ بنی قشیر کا اسلام قبول کرنا ( ہجرت کے آٹھویں سال ماہ شوال میں )

فتح مکہ کے بعد مسلمان بہت بڑی طاقت بن کر سامنے آئے اور بہت سے قبیلوں نے اسلام قبول کر لیا ان میں سے ایک قبیلہ، قبیلۂ بنی قشیر تھا جس نے جنگ حنین کے بعد پیغمبر اسلامؐ کی خدمت میں آ کر اسلام قبول کیا۔

جنگ طائف ( ہجرت کے آٹھویں سال ماہ شوال کی پانچویں تاریخ )

پیغمبر اسلامؐ اپنا لشکر لئے سرزمین طائف کی جانب روانہ ہوئے اور شہر کے قریب پڑاؤ ڈالا تھوڑی جنگ ہوئی اور اس میں مسلمانوں کے بیس افراد شہید ہو گئے لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ اہل طائف میں موجود کفّار بھی تسلیم ہو گئے۔

علیؑ کو حکم ( ہجرت کے آٹھویں سال ماہ شوال میں )

فتحِ طائف کے بعد پیغمبر اسلامؐ نے اپنے بھائی و وصی اور جانشین کو حکم دیا کہ شہر میں جا کر تمام بتوں کو گرا دیں نیز جاہلیت کے آثار جہاں بھی نظر آئیں انہیں بھی مٹا دیں حضرت علی علیہ السلام نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ساتھ لیا اور پیغمبر اسلامؐ کے حکم کو پایہ تکمیل تک پہونچایا۔

ابّی بن کعب کی ہلاکت ( ہجرت کے نویں سال ماہ شوال کے آخری ایام میں )

عبداللہ بن ابّی، پیغمبر اسلامؐ کے سر سخت دشمنوں میں سے ایک تھا اور اس نے ہر موقع پر اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کو کاری ضرب لگانے کی کوشش کی اور جہاں تک ممکن ہو سکا اس نے منافقت، دشمنی اور تفرقہ کا سہارا لیا لیکن آخر کار ہجرت کے نویں سال ماہ شوال کے اواخر میں وہ بھی ہلاک ہوگیا۔

منبع: hawzah.net       


[1] ۔ سریّہ اور غزوہ دونوں عربی کے لفظ ہیں اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ سریّہ رسول خدا کے دور کی اس جنگوں کو کہا جاتا ہے جن میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شرکت نہیں کی اور اپنی جگہ فوجی کا سپہ سالار کسی صحابی کو بنا کر بھیجا۔

ای میل کریں