امام حسن علیہ السلام کی عملی زندگی
امام حسن مجتبی علیہ السلام ١٥ رمضان المبارک ٣ ھجری کی شبِ مبارک، مدینہ منورہ میں پیداہوئے، آپ کی ولادت سے قبل جناب اُم فضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرمؐ کے جسمِ مبارک کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں آیا ہے۔
انہوں نے اپنا خواب رسول خدا سے بیان کیا تو آنحضرت نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ میری لخت جگر فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیدا ہو گا جس کی پرورش تم کرو گی۔ مورّخین کا کہنا ہے کہ رسولؐ کے گھر میں آپ کی ولادت اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی جس نے رسول اکرم کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کر دیا اور دنیا کے سامنے سورۂ کوثر کی عملی تفسیر پیش کی۔
جب اس مولودِ سعید کا نام مبارک تجویز ہو رہا تھا تو سرورِ کائنات نے بحکمِ خدا، حضرت موسیٰ کے وزیر، حضرت ہارون کے دو بیٹوں، شبّر و شبّیر کے نام پر آپ کا نام ‘‘حسن’’ اوربعدمیں آپؑ کے چھوٹے بھائی کا نام حسین رکھا۔
بحارالانوارکے مطابق امام حسن کی ولادت کے بعدجبرئیل أمین نے سرور کائنات کی خدمت میں ایک سفیدریشمی رومال پیش کیا جس پر حسن لکھا ہوا تھا۔
ماہر علم الانساب علامہ ابوالحسین کا کہنا ہے کہ خداوند عالم نے حضرت فاطمہ کے دونوں شہزادوں کے نام أنظار عالم سے پوشیدہ رکھے، یعنی اس سے پہلے حسن و حسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔
علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن کو ولادت کے بعد سرور کائنات کی خدمت میں لایا گیا تورسول خداؐ بے انتہاء خوش ہوئے اوراُن کے دہن مبارک میں اپنی زبان رسالت دیدی اور بحارالانور میں ہے کہ آنحضرت نے نومولود بچے کوآغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت دینے کے بعد اپنی زبان اُن کے منہ میں دیدی اور امام حسنؑ اسے چوسنے لگے اس کے بعد آپ نے دعافرمائی: "خدایا! اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھ۔" بعض کا کہنا ہے کہ امام حسن کو امام حسین کی نسبت رسول اکرم کا لعاب دہن کم چوسنے کاموقع ملا اسی لیے امامت امام حسین کی نسل میں مستقر ہوگئی۔
آپؑ کی ولادت کے ساتویں روز سرور کائنات نے اپنے دست مبارک سے آپ کا عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر ان کے ہم وزن چاندی تصدّق کی۔
امام حسن وارث خلق عظیم
اس کائنات میں اگر اخلاق کو تلاش کرنا ہو تو اخلاق مجسّم محمد وآل محمد کو دیکھا جائے در حقیقت ایسا لگتا ہے کہ ان کا ہر فعل اخلاق کے سانچے میں ڈھلا ہے اور ان کی سیرت اخلاق کی صورت ہو امام حسن اخلاق میں اپنے جد رسول اللہ کی مثال تھے اخلاق میں سب سے پہلی اور بنیادی سیڑ ھی ماں باپ کے حقوق کی رعایت سے امام حسن کبھی اپنی ماں فاطمہ زہرا کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے جب شہزادی کونین نے اس کا سبب پوچھا تو مولا نے فرمایا کہ اے مادر گرامی میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس چیز کو کھاؤں جس پر آپ کی نظر ہو اور اس فعل کے نتیجہ میں عاق ہو جاؤں بی بی دو عالم فرماتی ہیں : کہ اے میرے لخت جگر تم میرے ساتھ کھاؤ مجھے برا نہ لگے گا۔
امام حسن (ع) ہر جہت سے حسن تھے آپ کے وجود مقدس میں انسانیت کی اعلی ترین نشانیاں جلوہ گر تھیں،جلال الدین سیوطی اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ '' حسن(ع) بن علی (ع) اخلاقی امتیازات اور بے پناہ انسانی فضائل کے حامل تھے ایک بزرگ، باوقار، بردبار، متین، سخی، نیز لوگوں کی محبتوں کا مرکز تھے۔
تواضع اور منکسر مزاجی بزرگی اور کمال نفس کی علامت ہے رسول خدا فرماتے ہیں کہ انسان کا متواضع ہونا اسے سر بلند کرتا ہے ایک دن امام حسن نے دیکھا کہ راستہ میں کچھ فقیر زمین پر روٹی کے ٹکڑ ے رکھے کھا رہے ہیں ان لوگوں نے امام کو دیکھا تو کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی آپ نے دعوت کو قبول فرمایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی : انّ اللہ لا یحبّ المتکبّرین جب کھانے سے فارغ ہوئے تو امام نے ان کو اپنا مہمان ہونے کی دعوت دی انہیں کھانا کھلایا اور لباس عطاکیا
جس کے دل میں بھی خدا کی محبّت ہو اس کے ساتھ زندگی بسرکرنا آسان ہو جاتی ہے اور انسان یاد خدا اور ذکر خدا کے ذریعہ دل کو نرم کر سکتا ہے امام حسن کے ایک غلام نے خیانت انجام دی تو امام نے چاہا اس کو سزا دیں تاکہ وہ اس خطا کی دوبارہ جرأت نہ کرے لیکن کریم آقاکاغلام مزاج آشنا تھا فورا کہتا ہے : والکاظمین الغیظ امام فرماتے ہیں کہ میری ناراضگی دور ہو گئی غلام کہتا ہے :والعافین عن الناس ۔امام نے فرمایاکہ: میں نے تیری خطاکو معاف کیا غلام یہیں خاموش نہیں ہوتا بلکہ کہتا ہے : واللہ یحبّ المحسنین۔ امام فرماتے ہیں کہ میں نے تجھے خدا کی راہ میں آزاد کیا اور تیرے حقوق کو دو برابر کیا۔
سخاوت:
امام(ع) کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار تمام اموال اور اپنی تمام پونجی خدا کے راستہ میں دیدی اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا_ آدھا راہ خدا میں دیدیا اور آدھا اپنے پاس رکھا۔
ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دیدے_ امام _اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔
ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو آپ(ع) نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کردیا_ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر اس کے بعد آپ(ع) نے آیت پڑھی: "و اذاحُيّیتم بتحيّة فحَيّوا باحسن منہا" جب تم کو کوئی ہدیہ دے تو اس سے بہتر اس کا جواب دو۔
بردباری:
ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اور معاویہ کے اکسانے پر اس نے امام (ع) کو برا بھلا کہا امام (ع) نے سکوت اختیار کیا ، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا: "اے ضعیف انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تو اشتباہ میں پڑگیا ہے، اگر تم مجھ سے میری رضامندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا، اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو میں اس قرض کو ادا کروں گا، اگر تم بھوکے ہو تومیں تم کو سیر کردونگا ... اور اگر، میرے پاس آؤگے تو زیادہ آرام محسوس کروگے۔
وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں،خدا بہتر جانتا ہے کہ و ہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے_ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
مروان بن حکم، جو آپ کا سخت دشمن تھا، آپ (ع) کی رحلت کے بعد اس نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی امام حسین علیہ السلام نے پوچھا، میرے بھائی کی حیات میں تم سے جو ہوسکتا تھا وہ تم نے کیا لیکن اب تم ان کی تشییع جنازہ میں شریک ہو کر رورہے ہو؟ مروان نے جواب دیا: میں نے جو کچھ کیا اس شخص کے ساتھ کیا جس کی بردباری پہاڑسے زیادہ تھی۔