ماہ رمضان تہذیب نفس کا مہینہ
تہذیب نفس سے مراد، نفس کا مقابلہ، نفسانی خواہشات پر قابو پانا اور اسے شریعت و عقل کے دائرہ میں قرار دینا ہے روایات میں اسے نفس کے ساتھ جہاد اور جہاد اکبر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
تہذیب نفس کے مقدمات
خداوندمتعال نے ماہ مبارک رمضان میں تمام مسلمانوں کو مدعو کیا ہے اور اس نے ضیافت کے تمام ذرائع فراہم کر رکھے ہیں لہذا ضیافت الہی کے دسترخوان پر حسب ذیل امور کو تہذیب نفس کے لئے شمار کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ خدائی امداد: حدیث نبوی کی روشنی میں انسان کو ہر کام میں خداوندمتعال سے مدد مانگنا چاہئے تا کہ وہ اسے بہترین انداز میں انجام دے سکے۔( بحار الأنوار، محمدباقر مجلسی، (بیروت، مؤسسة الوفاء، 1404 هـ . ق)، ج73، ص305)
اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ کیا تہذیب نفس جیسے اہم عمل کے لئے خدا کی مدد و استعانت نہیں ہے؟ انسان اس راستہ میں جتنا بھی خدائی امداد سے مستفید ہو گا وہ بہتر طریقہ سے تہذیب نفس میں کامیاب ہوگا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لَوْ لا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُهُ ما زَکی مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَداً وَ لکِنَّ اللَّهَ یُزَکِّی مَنْ یَشاءُ وَ اللَّهُ سَمیعٌ عَلیمٌ (نور: 21) اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو پھر تم میں سے کوئی بھی پاکیزہ نہ ہو پاتا لیکن خدا ہی ہے جسے چاہتا ہے پاک و پاکیزہ بنا دیتا ہے اور وہ سمیع و علیم ہے۔
دوسرے مقام پر خداوندمتعال نے روزہ کے ذریعہ مدد کا حکم دیا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا اسْتَعینُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاةِ إِنَّ اللَّهَ معَ الصَّابِرینَ (بقره: 153) اے صاحبان ایمان صبر و نماز کے ذریعہ مدد مانگو کیونکہ خدا صابرین کے ساتھ ہے۔
مفسّرین نے واضح کیا ہے کہ اس مقام پر صبر سے مراد روزہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ روزہ تہذیب نفس اور تقوی تک پہونچنے کے لئے بہترین عمل ہے اور ماہ مبارک رمضان میں تہذیب نفس کے لئے خدائی امداد زیادہ انسان کے شامل حال ہوتی ہے۔
۲۔ اہل بیت سے تمسّک: تہذیب نفس کے لئے ایک اہم عمل اہل بیت سے تمسّک ہے۔ تسمّک کے راستے بہت سے ہیں منجملہ: ان کے اقوال سے آشنائی، زیارت نامہ کی تلاوت، ان کا احترام کرنا، ان کی خوشیوں اور ان کے غموں میں شریک ہونا، ان کی اور ان کے چاہنے والوں کی زیارت وغیرہ۔ روایات میں مذکور ہے کہ اگر تم لوگوں کو ہمارے اقوال سے آشنا کرو تو وہ ضرور اس کا استقبال کریں گے۔ ان کی زیارت ان سے محبت و نزدیکی کا سبب بنتی ہے اور ان سے محبت ان کی مخالفت میں کمی کا سبب بنتی ہے۔
ماہ مبارک رمضان میں یہ امکان سب کے لئے فراہم ہے کہ وہ اہل بیتؑ سے متمسّک ہوجائیں مثلا اکیس رمضان کو امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر مجلس میں شرکت کی توفیق حاصل کرنا اور اس کے نتیجہ میں وعظ و نصیحت سننے کے بعد اس پرعمل پیرا ہونا نیز ائمہ معصومین علیہم السلام کی منقولہ روایات سننے کے بعد ان پر عمل پیرا ہونا وغیرہ ماہ مبارک رمضان کی برکتوں میں سے ہے لہذا اہل بیتؑ سے متمسّک ہونا تہذیب نفس کے لئے بہترین عمل ہے۔
۳۔ انسانی کوشش میں مزید اضافہ: کیونکہ ماہ مبارک رمضان میں انسان بھوک و پیاس برداشت کرنا سیکھتا ہے، نفسانی شہوت میں کمی ہوتی ہے، گناہوں سے دوری کے لئے مزید راستہ ہموار ہوتا ہے، روزہ کے نتیجہ میں دلوں میں نرمی پیدا ہوتی ہے اور روحانی و نفساتی اعتبار سے بھی تہذیب نفس کے لئے انسان میں مزید ہمت و کوشش ایجاد ہوتی ہے۔ خداوندمتعال نے بھی وعدہ کیا ہے کہ جو شخص اس کے راستہ میں محبت کرے وہ اس کے لئے مزید راہیں ہموار کرتا ہے اور اسے سعادت و کمال کی جانب گامزن کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: وَ الَّذینَ جاهَدُوا فینا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنا وَ إِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنینَ (عنکبوت: 69) جو لوگ ہماری راہ میں کوشاں ہیں یقیناً ہم ان کے لئے مزید راہیں ہموار کرتے ہیں اور حقیقت میں خدا نیک کرداروں کے ساتھ ہے۔
مشہور و معروف عارف و عالم دین جناب مرحوم بید آبادی اپنے کسی دوست کی جانب خط لکھتے ہوئے ابتدا میں انسانی ہمت و کوشش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: اے میرے بھائی اور میرے عزیز! اگر خدا بندہ اپنی بلند ہمتی سے کام لے تو وہ اس کے نتیجہ میں پرواز کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جس طرح پرندے پراوز کرتے ہیں (روح مـجرد، سـید محمدحسین حسینی تهرانی، (مشهد، انتشارات علامه طباطبایی، 1429 هـ . ق)، ص 295)
۴۔ وقت: انسان جس سن و سال میں نفس سے مقابلہ کرے پسندیدہ عمل ہے لیکن تہذیب نفس کا بہترین وقت نوجوانی و جوانی ہے۔ جن انسانوں نے تکامل کی منزلیں طے کی ہیں انہوں نے تہذیب نفس کو نوجوانی و جوانی میں ہی آغاز کیا ہے کیونکہ بری صفات دلوں میں کم اثر کرتی ہیں اور اگر کر بھی لیں تو جلد مٹ بھی جاتی ہیں۔ لہذا ماہ مبارک رمضان تہذیب نفس کے بہترین وقت ہے۔
۵۔ جگہ: تہذیب نفس میں جگہ کا بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے مثال کے طور پر اس کام میں مساجد کا بہت اہم کردار ہے اور ماہ مبارک رمضان میں مساجد میں عبادت کرنا تہذیب نفس میں کافی مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید ان لوگوں کے بارے میں مساجد کے کردار کو بیان کرتا ہے جو تہذیب نفس اور طہارت نفس کا ارادہ رکھتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے: فیهِ رِجالٌ یُحِبُّونَ أَنْ یَتَطَهَّرُوا وَ اللَّهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرینَ(توبه: 108) ان میں وہ افراد ہیں جو خود کو پاک و پاکیزہ بنانا چاہتے ہیں۔
ماہ رمضان المبارک میں تہذیب نفس کے عوامل:
۱۔ نماز: رسول خداؐ نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے: أَیُّهَا النَّاسُ... مَنْ تَطَوَّعَ فِیهِ بِصَلَاةٍ کَتَبَ اللَّهُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النارِ وَ منْ أَدَّی فِیهِ فَرْضاً کَانَ لَهُ ثَوَابُ مَنْ أَدَّی سَبْعِینَ فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاهُ مِنَ الشُّهُورِ(بحار الانوار، ج۴۳، ص۳۵۶۔ ۳۵۸) اے لوگو! جو شخص ماہ مبارک رمضان میں ایک مستحب نماز پڑھے تو آتش جہنم سے آزادی کا پروانہ اس کے لئے لکھ دیا جاتا ہے اور جو شخص اس مہینہ میں واجب نماز بجا لائے تو اسے ستّر گنا ثواب ملے گا جو اسے ماہ رمضان المبارک کے علاوہ دوسرے مہینوں میں دیا جاتا ہے۔
۲۔ روزہ: تہذیب نفس کے سلسلہ میں روزہ کے اہم کردار کے بارے میں قرآن مجید نے بہت زیادہ تاکید ہے کہ روزہ کے ذریعہ مدد مانگو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ رجب، شعبان اور رمضان المبارک میں مسلل روزہ رکھتے تھے۔ علمائے اخلاق اور عرفاء بھی تہذیب نفس کے لئے ان مہینوں سے مستفید ہوتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حتی المقدور مستحب روزوں کو ترک نہ کیا جائے۔ (در محضر عارفان، واصف، بادکوبهای، قم، مـؤسسه فـرهنگی ـ انتشاراتی پارسـایان، 1377، هـ . ش)، ص 145)
۳۔ توبہ و استغفار: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں: أَیهَا الناسُ... وَ تُوبُوا إِلَی اللَّهِ مِنْ ذُنُوبِکُمْ... أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَنْفُسَکُمْ مَرْهُونَةٌ بِأَعْمَالِکُمْ ففُکُّوهَا باسْتِغْفَارِکُمْ) اے لوگو! اپنے گناہوں سے خدا کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ ۔ ۔ اے لوگو! تمہارے نفوس تمہارے اعمال کا نتیجہ ہیں اپنے نفوس کو استغفار کے ذریعہ پاک و پاکیزہ بناؤ ( بحار الانوار، ج۹۳، ص۳۵۶۔ ۳۵۸)
جو چیز توبہ میں اہم ہے اور بہت سے مقامات پر اس سے غفلت کی جاتی ہے وہ عملی توبہ ہے کیونکہ زبانی توبہ سب انجام دیتے ہیں یعنی انسان اپنے گناہوں کی تلافی کے لئے توبہ کرے اور اسے توجہ رکھنا چاہئے کہ گناہ اگر حق اللہ میں سے ہے تو بعض مقامات میں صرف زبانی توبہ ہی کافی ہے اور بعض مقامات پر کافی ہے مثلاً اگر نماز نہیں پڑھی تو اس کی توبہ یہ ہے کہ اس کی قضا بجا لائے اور اگر گناہ حق الناس میں سے ہے تو صاحب حق سے معافی طلب کرے مثلاً اگر اس کی غیبت کی ہو تو ایسی صورت میں اگر اسے بتانے کے نتیجہ میں فساد برپا ہونے کا خدشہ نہ ہو تو اس سے معافی مانگے یا اگر کسی کا مال اس نے چوری کیا ہے تو اسے لوٹانا اس کی توبہ ہے اور اگر حق الناس عزت وغیرہ کی قسم میں سے ہو تو اسے ان لوگوں کے پاس جا کر پشیمانی کا اظہار کرنا چاہئے جن کی اس نے آبروریزی کی ہے یا اگر اس نے کسی کو گمراہ کیا ہے تو اس کی توبہ گمراہ شدہ افراد کی ہدایت ہے۔
کتنا اچھا ہے کہ انسان ماہ مبارک رمضان میں خدا کی جانب سے مدعو کیا جاتا ہے اسے توبہ کی حالت میں اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہئے یعنی پاک و پاکیزہ لباس، پاک و پاکیزہ جسم اور پاک و پاکیزہ دل کے ساتھ خدا سے ملاقات کرے۔
۴۔ تلاوتِ قرآن: امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ انہوں نے ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ابو صلت کو ماہ مبارک رمضان میں طہارت و خلوص کے ساتھ داخل ہونے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: وَ أَكْثِرْ مِنَ اَلدُّعَاءِ وَ اَلاِسْتِغْفَارِ وَ تِلاَوَةِ اَلْقُرْآنِ وَ تُبْ إِلَى اَللَّهِ مِنْ ذُنُوبِكَ لِيُقْبِلَ شَهْرُ اَللَّهِ إِلَيْكَ وَ أَنْتَ مُخْلِصٌ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ۔ ۔ (بحار الانوار، ج۹۴، ص۷۳) بہت زیادہ دعا و استغفار و تلاوت کرو اور خدا کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرو تا کہ جب ماہ رمضان المبارک آئے تو اس وقت تم خالص ہو کر خدا وندمتعال کی بارگاہ میں پہونچو۔
کیونکہ تلاوت قرآن کا نفسانی طہارت میں بہت اہم کردار ہے لہذا علمائے دین نے بھی اپنی زندگی میں اس کا کافی اہمتمام کیا ہے۔
حضرت امام خمینی (رہ) اپنی روز مرہ کی زندگی میں قرآن کی تلاوت میں مصروف رہتے تھے اور ماہ مبارک رمضان میں کئی مرتبہ قرآن کو ختم کیا کرتے۔
میرزا جواد ملکی تبریزی تلاوت قرآن کے کردار کے بارے میں کہتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت کا کردار خدا کے کلام یعنی قرآن مجید اور اسے لانے والے کی عظمت نیز انسانی ذہن اور اس کی ضمیر سے آلودگی دور کرنے میں پوشیدہ ہے۔
۵۔ دعا: ماہ مبارک رمضان خدا کے ساتھ راز و نیاز کا مہینہ ہے قرآن مجید کی سب سے اہم عبارت دعا کے سلسلہ میں یہ ہے کہ اگر تم لوگوں کی دعا نہ ہوتی تو خداوندمتعال تم لوگوں کی جانب توجہ ہی نہ کرتا۔ نیز دعا کو روایات میں انسانی رشد و ترقی کا سبب بھی قرار دیا ہے۔
خطبہ شعبانیہ میں پڑھتے ہیں: اے لوگو! نماز کے بعد تم اپنے ہاتھوں کو بارگاہ خداوندی میں بلند کرو کیونکہ یہ وقت بہترین اوقات میں سے ہے اور یہ ایسا وقت ہے جس میں خداوندمتعال اپنی نظر رحمت سے اپنے بندوں کو دیکھتا ہے اور اگر وہ اس سے راز و نیاز کریں تو یقیناً وہ ان کا جواب دیتا ہے اور اگر اسے پکاریں تو وہ ان کی پکار سنتا ہے اور اگر اس سے مانگیں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے۔ اے لوگو! اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھلے ہیں لہذا خدا سے انہیں کلھے رہنے کی دعا کرو اور دوزخ کے دروازے بند ہیں خدا سے ان کے بند رہنے کی دعاکرو اور شیاطین زنجیروں میں ہیں اور خدا سے انہیں زنجیروں میں بند رہنے کا مطالبہ کرو۔ ( بحار الانوار، ج۹۳، ص۳۵۶۔ ۳۵۸)
۶۔ نوافل: تہذیب نفس میں نوافل اور مستحب نمازوں کا بہت بڑا کردار ہے اور مستحب نمازوں میں بھی دو نمازوں کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، یومیہ نوافل اور نماز شب۔ قرآن مجید نے تہذیب نفس میں نماز شب کے کردار کی جانب اشارہ کیا ہے، قرآن میں خداوندمتعال اپنے پیغمبر یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تاکید کرتا ہے کہ اگر مقام محمود چاہتے ہو تو نماز شب کے سایہ میں ہی وہ حاصل ہو سکتا ہے۔ (اسراء/ ۷۹)
نماز شب کے تین امتیاز ہیں: ۱۔ تاریکی شب کی آرامش: کیونکہ خداوندمتعال نے رات کو سکون و آرامش قرار دیا ہے اور غیب کی جانب پرواز کے لئے رات بہترین وقت ہے۔ ۲۔ فکری و ذہنی آرامش: انسان تھوڑے آرام کے بعد ہی ذہنی اور فکری اعتبار سے خداوندمتعال سے راز و نیاز کے لئے تیار ہوتا ہے۔ ۳۔ خلوت میں یادِ خدا: خدا کی یاد دلوں کی آرامش ہے اور سب سے بہترین ذکر نماز ہے۔
۷۔ صلوات: تہذیب نفس میں ایک اہم عنصر ذکر ہے اور اذکار میں صلوات کا نہایت ہی اہم کردار ہے۔ جناب شیخ رجب علی خیاط کے ایک چاہنے والے کا کہنا ہے: شیخ رجب علی استغفار اور صلوات کو کافی اہمیت دیتے تھے اور انہوں نے پا لیا تھا کہ یہ دونوں اہم امور ہیں اور وہ کہتے تھے جو شخص اپنی زندگی میں زیادہ صلوات بھیجتا ہے تو موت کے وقت رسول خداؐ اس کے لبوں پر بوسہ دیتے ہیں۔ (کیمیایی محبت، محمد ری شھری، ص۲۰۷)
۸۔ سجدہ: نماز کے علاوہ بھی سجدہ تہذیب نفس میں اہم کردار رکھتا ہے لیکن لازمی ہے کہ سجدہ میں بہترین ذکر کا انتخاب کیا جائے۔ ذکرِ " لا اله الاانت سبحانک انی کنت من الظالمین اور ذکر لا اله الا الله" ، " لاالله الا الله حقّاً حقّاً لا الله الا الله تعبُّداً ورقّاً لاالله الاالله ایماناً وصدقاً" وغیرہ بہترین اذکار ہیں۔
۹۔ زبان پر کنٹرول: اس مہینہ میں زبان پر صرف ذکر الہی ہونا چاہئے کلام نبوی میں ذکر ہوا ہے کہ جو شخص اپنی زبان کی حفاظت کرے اس نے کل قرآن پر عمل کیا ہے۔ (چراغ سلوک، حسین احمدی حسین آبادی، ص۱۲۴)
۱۰۔ نظروں کو نیچا رکھنا: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے: وَ غُضّوا عمّا لا یحلُّ النَّظرُ الیہِ ابصارکم۔ اس مہینہ میں حرام نگاہوں سے اپنے آنکھوں کی حفاظت کرو۔
۱۱۔ کانوں کی حفاظت: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے لوگو اس مہینہ میں اپنے کانوں کو حرام باتیں سننے سے دور رکھو۔
۱۲۔ صدقہ دینا: ایک روایت میں ذکر ہوا ہے: جو شخص ماہ مبارک رمضان میں صدقہ نکالے خداوندمتعال اس سے ستر قسم کی بلاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام نے تاکید کی ہے کہ جب بھی انسان جسمانی و روحانی امراض میں مبتلا ہو تو اسے صدقہ دینا چاہئے۔
۱۳۔ اچھا اخلاق: تہذیب نفس میں اچھا اخلاق اہم اسباب میں سے ہے کیونکہ اچھے اخلاق کے سایہ میں ہی بہت سی بری صفات مٹ جاتی ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے علی اپنے اخلاق کو اپنے ہمسایوں، ہم نشینوں اور اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا بناؤ تا کہ خدا کے نزدیک بلند و برتر مراتب میں تمہارا شمار کیا جائے۔ (بحار الانوار، ج۷۴، ص۶۹)
منبع: howzah.net