رمضان المبارک معصومین (ع) کی روایات کی روشنی میں
لغت میں "رمضأ" سے شدت حرارت کے معنی اور جلانے کے معنی میں ہے؛ کیونکہ اس ماہ میں انسانوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اس ماہ کو ماہ مبارک رمضان کہا جاتا ہے۔
رسولخدا (ص) فرماتے ہیں:" ماہ رمضان کو رمضان اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں گناہ جلادیئے جاتے ہیں یعنی بخش دیئے جاتے ہیں۔ " رمضان قمری مہینوں کا ایک مہینہ ہے اور یہی وہ واحد مہینہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہوا ہے۔ یہی مہینہ ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن میں خداوند عالم نے جنگ و دال اور قتل و کشتار کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی ماہ میں آسمانی کتابیں؛ انجیل، توریت، صحف ، زبور اور قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ یہ مہینہ اسلامی روایات میں ماہ خدا اور امت محمد (ص) کی مہمانی سے یاد کیا گیا ہے۔
خداوند سبحان اس ماہ میں اپنے بندوں کے ساتھ غایت درجہ احترام و اکرام اور لطف و مہربانی کے ساتھ مہمان نوازی کرتا ہے۔ یہ مہینہ مسلمانوں کے درمیان خاص اہمیت اور عظمت کا حامل ہے۔ یہ مہینہ مسلمانوں کے روحانی اور معنوی سیر وسلوک، بارگاہ خداوند میں راز و نیاز، توبہ و انابت، گریہ و زاری اور درخواست و دعا، خیر و خیرات کے لئے ہے۔ یہ مہینہ سال کے بارہ مہینوں میں سے اہم ترین اور عظیم ترین مہینہ ہے۔ اسی ماہ میں قرآن کا نزول ہوا ہے۔
خود قرآن کریم اس ماہ کے بارے میں فرماتا ہے: "ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں انسانوں کی ہدایت کے لئے قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ "
رسولخدا (ص) فرماتے هیں: "اے لوگو! ماہ خدا برکت و رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمہارا استقبال کررہا ہے۔" وہ مہینہ ہے جو تمام مهینوں سے بلند تر جس کے ایام و شب تمام مہینوں کے ایام و شب سے بہتر ہیں۔ وہ مہینہ ہے جس میں تہمیں خدا نے اپنا مہمان بنایا ہے اور اپنے لطف و کرم سے نوازا ہے۔ اس ماہ میں تمہاری ہر سانس تسبیح اور تمہارا سونا عبادت شمار ہوتا ہے۔ اس ماہ میں تمہارے اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں۔
حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں: "پورا قرآن ماہ رمضان میں بیت المعمور میں نازل ہوا ہے اس کے بعد 20/ سال کی مدت میں رسولخدا (ص) پر نازل ہوا۔ صحف ابراہیم ماہ رمضان کی پہلی رات کو اور توریت 6/ رمضان، انجیل 13/ رمضان اور زبور 18/ رمضان کو نازل ہوا ہے۔"
حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں: "خداوند عالم نے فرمایا: روزہ میری طرف سے ہے اور اس کی جزا میں ہی دوں گا۔"
حضرت فاطمہ الزہراء (س) فرماتی ہیں: "خداوند عالم نے روزہ اخلاص کی استواری کے لئے واجب کیا ہے۔"
حضرت رسولخدا (ص) فرماتے ہیں: "روزہ جہنم کی آگ کے مقابلہ میں سپر ہے۔ روزہ رکھنے سے دل و دماغ، روح اور جسم کو سکون ملتا ہے اور روح کی سلامتی اور جسم کی تندرستی کا باعث ہے۔" نیز فرماتے هیں: "روزہ رکھو تا کہ سالم رہو۔ " نیز فرماتے هیں: "معدہ تمام بیماریوں کا گھر ہے اور روزہ سب سے بڑا علاج ہے۔"
حضرت علی (ع) نے رسولخدا (ص) سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! شیطان سے ہم کو کون سی چیز دور کرتی ہے، تو رسولخدا (ص) نے فرمایا: روزہ اس کے چہرہ کو سیاہ کرتا ہے اور صدقہ اس کمر توڑ دیتا ہے۔ جب انسان روزہ رکھتا ہے تو بھوک اور پیاس کے وقت فقراء اور مساکین کو یاد کرتا ہے نتیجتا ان کی مدد کرنے میں جلدی کرتا ہے۔
امام حسن عسکری (ع) نے فرمایا: "روزہ رکھنے سے مالدار بھوک کا مزہ چکھتا ہے اور نتیجتا ضرورت مند کی مدد کرتا ہے۔" اسی طرح روایات اور معصومین (ع) کی سیرت میں روزہ رکھنے کے بے شمار فوائد، فضائل اور برکتیں بیان ہوتی ہیں۔
حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
رمضان المبارک کا مہینہ ہے اس میں رحمت الہی کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور سارے گناہ کاروں کے لئے توبہ اور خودسازی کا موقع فراہم رہتا ہے۔ آپ لوگ جتنا جلد ہوسکے اس ماہ رمضان میں اپنی اپنی اصلاح کرلیں (صحیفہ امام، ج 15، ص 31)
ہر سال ماہ مبارک رمضان یعنی خدا کی مہمانی اور ماہ خدا کی آمد کے موقع پر حضرت امام خمینی (رح) اپنی ملاقاتوں یا مناسبتوں سے پیغامات جو دیتے تھے اس ماہ میں ماہ مبارک رمضان کی عظمت و اہمیت پر روشنی ڈالتے تھے اور اس سے مخصوص باتیں بیان کرتے تھے۔ ماہ مبارک رمضان کے پهلووں کے بارے میں ہماری روایات میں ائمہ معصومین (ع) سے بہت ساری باتیں بیان ہوئی ہیں اور آپ اس کے پہلووں پر روشنی ڈالتے تھے۔ اس عظیم اور بابرکت مہینہ سے مخصوص دعاؤں میں بھی اس ماہ مبارک کی عظمت کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اس ماہ میں رحمت الہی کے دروازے کھلے ہیں جیسا کہ امام خمینی (رح) نے بھی مذکورہ بالا کلام میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
امام خمینی (رح) ماہ مبارک رمضان میں دعا کی قبولیت کی اصلی وجہ تزکیہ نفس اور خودسازی جانتے تھے اور اس ماہ کی حقیقت تک رسائی کو ورح و جان کی تربیت اور اصلاح جانتے تھے۔
اگر دعوت الہی کو قبول کرنے کے خواہاں ہو اور اس مہمانی میں شریک ہونا چاہتے ہو تو اپنے دل کو دنیاوی کثافتوں اور گندگی سے دور کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ (صحیفہ امام، ج 17، ص 493)
امام خمینی (رح) کی علمی اور عملی سیرت سے جو ہمیں اندازہ ہوتا ہے وہ اس ماہ مبارک کی خاص عظمت اور اہمیت کو بتاتا ہے اور اس ماہ میں اعمال، وظائف، دعائیں اور عبادات ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس ماہ میں آپ سے ملاقات ممنوع تھی۔ ہاں اگر ملک میں کوئی خاص مسئلہ رونما ہوجائے تو پھر آپ کے مشورہ اور آپ کی شرکت ضروری ہوجاتی تھی ورنہ آپ خود ماہ مبارک رمضان کو بہت عظیم کام جانتے تھے اور خود کو اس ماہ کے واجب اور مستحب اعمال کا پابند جانتے تھے اور اس روحانی اور عظیم مہینہ میں قرآن اور معصومین (ع) سے منقول دعاؤں سے حیرت انگیز انس رکھتے تھے جیسا کہ نقل کیا گیا ہے کہ آپ اس ماہ میں ہر 3/ دن پر ایک قرآن ختم کرتے تھے۔