شریعت مقدس اسلام کی روشنی میں بچے جب تک بالغ نہیں ہوجاتے اس وقت تک ان پر کوئی شرعی فریضہ عائد نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی بالغ ہوجاتے ہیں اور سارے شرعی فرائض سے روبرو ہوتے ہیں تو پہلے سے آشنائی اور آمادگی نہ رکھنے کی وجہ سے ان کے لئےان تمام فرائض اور واجبات کا قبول کرنا دشوار ہوتا ہے، ممکن ہے کہ عبادی اعمال کی نسبت کوئی دلچسپی نہ دکھائیں، بچوں کے بچپنے میں عبادی فرائض کی تعلیمات کی حکمتیں یہ ہیں کہ بچے ان اعمال کی ادائیگی کی پابندی کریں تا کہ انہیں ملکہ حاصل ہوتا کہ بالغ ہونے پر ان احکام اور واجبات کو قبول کرنا دشوار نہ ہو، بیشک اگر بچے اپنے بچپنے اور نوجوانی کے آغاز میں دینی تعلیمات سے بے فیض رہیں تو جوانی اور بڑے ہونے پر معنوی جمود اور ورحانی نقصان کا شکار ہوں گے۔
یہ صحیح ہے کہ لڑکا 15/ سال اور لڑکی 9/ سال کے بعد بالغ ہوتے ہیں اور اس سے پہلے ان پر کوئی فریضہ نہیں ہوتا لیکن دینی فرائض کی انجام دہی کی عادت ڈالے ورنہ بالغ ہونے کے بعد ان کا بجا لانا بچے کے لئے دشوار ہوگا، یا تو بالکل اسے قبول نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو پابندی نہیں کرے گا اور معمولی سے معمولی بہانہ بنا کر اسے ترک کردے گا؛ کیونکہ جس کام کی بچپن سے کرنے کی عادت نہ ہوگی اسے بڑے ہو کر کرنے میں دشواری ہوگی۔
امام خمینی (رح) کے بارےمیں آپ کی شریک حیات خدیجہ ثقفی فرماتی ہیں:
"امام خمینی (رح) بچوں کی دینی تربیت کے سلسلہ میں 7/ سال ہی سے توجہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ بچے 7/ سال کی عمر میں نماز پڑھیں، بچوں کو نماز پڑھنے کی تشویق کرو تا کہ جب 9/ سال کے ہوجائیں تو عادی ہوچکے ہوں۔"
پردہ کی عادت
آیت اللہ پسندیدہ کی بیٹی فروغ السادات نقل کرتی ہیں: ایک بار میں، میرے شوہر اور میری 5/ سال کی بچی امام سے ملاقات کرنے قم آئے۔ آقا ہمیشہ بہت ہی پیار و محبت سے پیش آتے تھے لیکن جب ان کی خدمت میں پہونچے تو آقا نے کہا: اس بچی کاکیا نام ہے؟ میں نے کہا: فریبا۔ انہوں نے کہا: اس کے سر کو ڈھاپنا کیوں نہیں؟ میں نے کہا: آقا یہ ابھی 5/ 6/ سال کی ہے۔ آپ نے کہا: کوئی حرج نہیں 5/ یا 6/ سال سے کیا ہوتا ہے اس کے سر پر کچھ رکھو! اس طرح سے عادی ہوجائے گی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ضرور ایسا کروں گی۔
حضرت امام خمینی (رح) پردہ اور چہرہ ڈھانپنے کی بہت تاکید کرتے تھے۔(پدرمہربان، ص 75)
بلوغ سے پہلے فرائض کی تاکید
ہمیں کوشش کرنا چاہیئے کہ بچوں کی عبادی فرائض کی نسبت دلچسپی، اندرونی چاہت اور مقصد میں تبدیل ہوجائے اور یہ لگاؤ ان کے اندر سے جوش مارے۔ لہذا شناخت کے پہلو کے علاوہ بچوں کے احساسات سے استفادہ کیا جائے اور ان کے لئے دین اور دینی فرائض کی حسین تصویر پیش کی جائے تا کہ عبادی فرائض اور مناسک کی جانب رجحان اور عمل کا جوش و جذبہ بچوں کے اندر پیدا ہو تا کہ بچے خود سے یہ کام انجام دیں لیکن اس کے لئے بچپنے ہی میں ضروری آمادگی کرائی جائے اور اس کی جانب ان کو توجہ دلائی جائے۔