دمشق میں ایران، شام اورعراق کی مسلح افواج کے سربراہوں کے جمع ہونی کی وجہ سامنے آگئی
دمشق میں ایران، شام اور عراق کی مسلح افواج کے سربراہوں کے اجلاس میں تہران، دمشق اور بغداد کے درمیان عسکری تعاون کا جائزہ لیا گیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران، شام اورعراق کی مسلح افواج کے سربراہوں کے اجلاس میں داعش کے خلاف جنگ میں تینوں ملکوں کے درمیان عسکری تعاون کو قابل تعریف بتایا گیا ہے۔
اجلاس میں سبھی دہشت گرد گروہوں کے مقابلے میں تینوں ملکوں کی مسلح افواج کے درمیان ہماہنگی کو ضروری بتایا گیا۔ دمشق اجلاس میں شام سے ان غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا جو دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر ہی شام میں آئی ہیں۔
اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شام کے وزیر دفاع جنرل علی عبداللہ ایوب نے یہ بات زور دے کر کہی کہ دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر شام آنے والے فوجیوں کی موجودگی غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اوردیگر ملکوں کو شام سے جانا ہی ہوگا کیونکہ ان کی موجودگی غیر قانونی ہے اورغاصبانہ قبضے کے مترداف ہے۔
شام کے وزیردفاع نے کہا کہ ہم داعش سے براہ راست جنگ میں مصروف ہیں اور ہمارے دوستوں اور اتحادیوں نے داعش کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی شکست کے ساتھ اسرائیل کے اشتعال انگیز اقدامات میں اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ دہشت گرد دراصل اسرائیل کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
ایران کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل باقری نے اس موقع پر کہا کہ مکمل بیخ کنی تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سامراجی طاقتوں کے نمک خوار خطے کی سلامتی کو درھم برھم کرنے اور اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو دوام دینے میں مصروف ہیں تاہم ایران،عراق اور شام ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔
عراق کی مسلح افواج کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل عثمان الغانمی نے اس موقع پر کہا کہ عراق، شام اور ایران نے دہشت گردی کا سخت ترین انداز میں مقابلہ کیا اور آخر کار خیر و نیکی نے دہشت گردی کو شکست دے دی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد جہاں سے آئے تھے وہاں فرار ہو رہے ہیں
ایران کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل باقری اس اجلاس میں شرکت کے لئے اتوار کو ہی دمشق پہنچ گئے تھے۔