امام خمینی (رح) کے جلاوطن ہونے کے دوسرے دن حاج آقا مصطفی کو بھی گرفتار کیا گیا اور تقریبا ایک ماہ جیل میں رکھنے کے بعد آزاد کردیا گیا لیکن دو دن بعد پھر گرفتار کرلیا گیا اور ترکی جلاوطن کردیا گیا۔ ان کی جلاوطنی کے بعد امام کے طرفداروں اور چاہنے والوں کے درمیان بعض مراجع کے بیانات سے خوف و ہراس پیدا ہوگیا۔ یہ مراجع کرام 15/ خرداد کے خونین واقعہ سے کافی ڈرے ہوئے تھے اور اس بات کا خطرہ محسوس کررہے تھے کہ حکومت کہیں دوبارہ اس طرح کا اقدام نہ کردے اور خونریزی برپا ہوجائے۔ بعض عافیت طلب افراد بھی مجاہدین کے کانوں میں صور پھونکتے کہ مجاہدت اور مقابلہ نہ کرو اور اپنی زندگی اور معاشی فکر کرو۔ کسی میں حکومت سے مقابلہ کرنے کی توانائی نہیں ہے۔ تم لوگ آقا خمینی (رح) سے بڑے تو نہیں ہو جب حکومت نے انھیں بڑی آسانی کے ساتھ جلاوطن کردیا تو تم کیا ہو اور اب دیکھتے جاؤ کہ وہ لوگ تم لوگوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ اس طرح کی باتیں وہ بھی ان لوگوں سے جو اس وقت تک انقلاب اور امام کے ہمراہ تھے، کارگر ثابت ہوئیں اور ان لوگوں نے میدان مقابلہ ترک کردیا۔ صرف کچھ ہی لوگ میدان میں مقابلہ میں ڈٹ رہے جو بہت زیادہ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ جز صوبائی اعلانیہ صادر کرنے لیکن وہ بھی لوگوں کے ترکی جانے اور وہاں سے امام کی خبر لانے سے ختم ہوگئی۔ لیکن جب کچھ مدت بعد خبر ملی کہ امام پر کافی دباؤ دیا جارہا ہے تو علماء اور مدرسین دوبارہ حرکت میں آگئے اور جلسے کرنے لگے اور پروگرام بناکر ترکی میں امام کی صورتحال اور آپ پر شکنجہ دینے کی وجہ سے ترکی حکومت پر اعتراض کیا۔