آپ کی تاریخ شہادت کے بارے میں علماء اور مورخین کے درمیان اختلاف ہے لیکن 13/ جمادی الاول اور 3/ جمادی الثانی والی دو روایتوں کے درمیان معتبرترین روایت 3/ جمادی الثانی ہی ہے اور اردو زبان طبقہ نیز عام لوگوں کے درمیان یہی تاریخ مشہور ہے۔ اور اسی تاریخ کو ہندوستان اور پاکستان میں آپ (س) کی شہادت کی تاریخ جان کر عزاداری اور سوگواری کی جاتی ہے اور ہر جگہ آداب و رسوم کے اعتبار سے آپ کی جانگداز شہادت پر غم و الم اور سوگ و ماتم کا اظہار کیا جاتا ہے۔
آپ کی بابرکت اور پر فیض حیات طیبہ کا ہر لمحہ ہدایت و رہنمائی اور انسانوں کو خدا کی عبودیت و بندگی سے قریب کرنے اور خدا سے جوڑنے کا اعلی نمونہ ہے۔ حیرت تو یہ ہوتی ہے کہ رسولخدا (ص) کی اکلوتی بیٹی اور تاج عصمت و شرافت کی مالک جس کی محبت اور دوستی رضائے الہی، جس سے بعض و کینہ رکھنا غضب الہی کا باعث ہے اسی بیٹی کی تاریخ شہادت میں اختلاف ہے اور اسی کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا گیا، اسے اس درجہ ستایا گیا اور ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ۔آخر ایسا کیوں؟ اور کس نے آپ کے ساتھ ناروا سلوک کئے، کس نے آپ کے گھر کا دروازہ جلایا، کس نے آپ کے پہلو کو شکستہ کی؟ کس نے آپ کے شکم میں موجود بچے کو شہید کیا؟ وجہ کیا تھی؟ کیا تاریخ نے اس کے اسباب و علل پر روشنی نہیں ڈالی ہے؟
تاریخ انصاف کے دامن میں سب کچھ موجود ہے۔ صدر اسلام کا مومن معاشرہ سب کچھ جانتا تھا اور اسی نے اپنی معلومات ہم تک پہونچائی ہے۔ کیا کوئی اپنے نبی آخر الزمان کی بیٹی کو ستاتا ہے وہ بھی اس درجہ کے باپ کی رحلت کے بعد 75/ دن یا 95/ دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکیں اور اس کے بعد کی پوری زندگی گریہ و زاری اور باپ کے سوگ اور غم میں گذر گئی، کیا کوئی 18 سال کی خاتون کے بال سفید ہوجاتے ہیں، کمر خمیدہ ہوجاتی ہے، کیا کوئی 18/ سالہ خاتون بوڑھی لگی ہے؟ جس گھر کی اتنی عظمت و شان ہو کہ ہر صبح پیغمبر آخر الزمان آکر اس گھر پر سلام کریں، اسے آگ لگادی جائے، رسول کی بیٹی کو کوڑے لگائے جائیں، کیا کوئی منصف مزاج اور عادل انسان اس ظلم و بربریت کو برداشت کر سکتا ہے؟ کیا کوئی ایسا کرنے والے کو مومن اور مسلمان کہہ سکتا ہے؟
ہرگز نہیں تاریخ کے انصاف پسند مورخ نے ان حقائق سے پردہ اٹھایا ہے اور ایسا کرنے والوں کو ظالم و بے ایمان ثابت کیا ہے۔ یہ سب کیوں ہورہا تھا؟ اس کی صرف اور صرف وجہ یہ تھی کہ حضرت علی (ع) کی ولایت الہیہ اور خلافت نبویہ کا دفاع کررہی تھیں۔ رسولخدا (ص) کے حقیقی جانشین اور وارث علم لدنی کا تعارف کرارہی تھیں۔ لوگوں تک حقائق پہونچا کر باطل کو بے نقاب کررہی تھیں۔ خلافت الہیہ پر اس وقت کے ظالم حکمرانوں کے ڈالے ہوئے باطل اور غاصبانہ پردہ کو اٹھا رہی تھیں اور حق اس کے حقدار کے لئے ثابت کررہی تھیں۔
14/ صدیاں گذرنے کے بعد بھی مسلمانوں کے سمجھ میں نہ آیا کہ فاطمہ مرضیہ، بتول عذرا اور محدثہ عابدہ کا کیا گناہ تھا کہ اس وقت کے نام نہاد مسلمانوں اور حکمرانوں نے آپ کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ آپ کو آپ کے حق سے محروم کیا۔ آپ کے دفاع ولایت پر ظلم ڈھائے اور اللہ و رسول کی ناراضگی مول لی۔ آج ترقی یافتہ دنیا میں تحقیق کے لئے بہت ساری آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں اگر کوئی کتاب کا مطالعہ نہ کرے تو حضرت زہراء (س) کی عظمت، عفت و پاکدامنی، طہارت و نجابت، شرافت و فضیلت کی روشنی میں تنہائی میں بیٹھ کر بھی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ آپ بے گناہ اور مظلومہ تھیں۔ آپ پر ظلم کرنے والا مسلمان تو دور، انسان بھی نہیں ہوسکتا۔ لہذا تمام انسانوں اور خدا کی عبودیت کا دم بھرنے والوں سے میری گزارش ہے کہ اس موضوع پر ذرا سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور اس کے نتائج سے دنیا کے انسانوں کو باخبر کریں۔