اسلامی انقلاب کی کامیابی کا اہم زار
امام خمینی (رہ) کے بغیر ایران کے اسلامی انقلاب کو دنیا میں کہیں بھی پہچنوانا ناممکن ہے۔ یہ رہر معظم انقلاب (حضرت آیت اللہ خامنہ ای) کا وہ تاریخی جملہ ہے جو انہوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کی رہنمائی میں امام خمینی (رہ) کے اہم کردار کو نمایاں کرتے ہوئے بیان فرمایا۔ دنیا کے بہت سے سیاستمداروں کے مطابق اس جملہ میں انقلاب اور رہنمائی کے درمیان مضبوط استحکام کو بیان کیا گیا ہے جس کی حقیقت، خصوصیات اور کردار کو انسانی تمدن کی تاریخ میں کہیں بھی نہیں پایا جا سکتا۔ اگرچہ ہر انقلاب میں رہنما کا اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے لیکن انقلاب کے مختلف مراحل میں رہنما کا کردار مؤثر واقع ہونا نہایت لازمی ہے۔ جب ہم ڈیکٹیٹرشپ، سامراجیت اور نظام شہنشاہی کے خلاف انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والے منجملہ افراد جیسے لنین، مائو، کاسٹرو اور ان کی مانند دوسرے رہنماؤں کا امام خمینی (رہ) کی جانب سے برپا کئے گئے انقلاب سے موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ امام خمینی (رہ) کی جانب سے برپا کئے گئے انقلاب کے تینوں مراحل یعنی انقلاب کے آغاز، انقلاب کی کامیابی اور اس کے دوام میں امام (رہ) اپنی مثال آپ ہیں۔ امام خمینی (رہ) نے اسلامی انقلاب کی راہ میں سب سے پہلا قدم حوزہ علمیہ سے اٹھایا اور مذہبی مباحث کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل میں مذہبی کردار کو اپنے خطابات میں نوجوان طلاب کے سامنے بیان کیا جس کے نتیجہ میں انہی طلاب کے ذریعہ ان مباحث نے پورے معاشرہ میں نشر و اشاعت پائی۔ امام (رہ) کے انقلابی جذبہ اور ان کے نزدیک معاشرہ میں علماء کی ذمہ داری اس چیز کا سبب بنی کہ وہ قوم اور اسلام کے خلاف شاہ کے ظالمانہ پالیسیوں پر اعتراض کر پائیں اور تمام لوگوں کو اس کے انجام سے بھی باخبر کریں۔ اگرچہ شہنشاہی نظام نے امام خمینی (رہ) کو فیزیکلی طور پر ایرانی قوم سے دور کرنے کے نتیجہ میں اسلامی انقلاب کی رفتار میں تبدیلی پیدا کی لیکن امام (رہ) کے خطابات اور افکار کی کشش نے اس ۱۵ سالہ خلا کو بھر دیا۔ اور ۱۳۵۶ش میں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایرانی قوم نے امام خمینی (رہ) کی تصاویر اپنے ہاتھوں میں لے کر شہنشاہی نظام اور اس کے فاسد درباریوں کے خلاف احتجاج کیا اور ۱۳۵۷ش میں ایران کے اکثر شہروں میں عملی طور پر امام خمینی (رہ) کی رہبری کو تسلیم کر لیا اور اس اسلامی انقلابی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ۱۲ بھمن کو لاکھوں کی تعداد میں امام (رہ) کا استقبال کیا۔ ایران میں افتخارانہ انداز میں امام (رہ) کا تشریف لانا اس چیز کی علامت ہے کہ امام (رہ) ایرانی قوم کے دلوں اور جانوں پر حکومت کر رہے تھے جبکہ شہنشاہی نظام کے آلہ کار مکمل طور پر مسلح تھے۔ دلوں پر ایسی حکومت اپنی نوعیت میں بے نظیر ہے اور اس کا مشاہدہ انقلابی رہنماؤں میں بہت کم کیا جا سکتا ہے۔ انقلابی کی کامیابی میں امام (رہ) کا کردار بالخصوص ان کے ایران تشریف لانے سے ۲۲ بھمن تک دنیا کے کسی بھی انقلاب سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ کسی بھی خارجہ طاقت سے وابستہ نہ ہونا نیز صرف خدائی امداد اور ایرانی قوم کی لازوال طاقت پر تکیہ کرنا اور شہنشاہی حکومت کی جانب سے کسی طرح کی سازش کو تسلیم نہ کرنا اور اس کا منہ توڑ جواب دینا امام خمینی (رہ) کی منجملہ بے نظیر خصوصیات تھیں جنہوں نے بیسویں صدی کے آخر میں عظیم الشان انقلاب میں ان کے اہم کردار کو جاودانہ بنا دیا۔
عراقی جنگ اور اس کے بعد علاقے اور عالمی تبدیلیوں میں سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی تمام پہلوؤں میں امام (رہ) نے اپنی رہنمائی کو بہترین انداز نیز مخصوص حکمت عملی کے ذریعہ انجام دیا۔ سیاستمداروں کے مطابق بالخصوص عراق کے خلاف جنگ میں اگر امام خمینی (رہ) اپنی مخصوص حکمت عملی سے کام نہ لیتے تو ہرگز معلوم نہیں تھا کہ اسلامی انقلابی کا انجام کیا ہوتا اور وہ کس سمت حرکت کرتا۔ رہنمائی اور انتظار امام زمانہ (عج) امام خمینی (رہ) کی بہترین اور خوبصورت خدمات شمار ہوتی ہیں۔ معنویت اور اسلام کے حیات بخش مکتب کی اقدار کو زندہ کرنا امام زمانہ (عج) کے انتظار میں سے شمار ہوتی ہیں، بعض تحلیل گروں کے مطابق یہ موضوع اسلام اور مسلمانوں کے حق میں امام خمینی (رہ) کی بے نظیر اور عظیم الشان خدمات نیز تمام کامیابیوں کا سرچشمہ اور ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کا بنیادی راز ہے۔ حقیقت میں جس فقیہ نے فقاہتی نظام کو تھیوری سے عملی صورت میں تبدیل کیا اور معنوی اقدار اور خدائی احکام اور آیات الہی کو عملی جامہ پہنایا نیز خالص اسلام کے چہرہ کو تمام قسم کے خرافات سے بہچنوایا اور اسلامی مسائل کو اسلامی حکومت کی تشکیل میں ثابت کیا وہ امام خمینی (رہ) کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا جنہوں نے اسلامی انقلاب کی بہترین انداز میں رہنمائی فرمائی۔ انہوں نے اس وقت اسلامی انقلاب کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی جب مغربی کلچر شہنشاہی نظام کے سائے میں اسلام اور مسلمانوں پر حاکم تھا اور اس نے اسلامی معاشرے کو نا امید کرتے ہوئے تزلزل کا شکار بنا رکھا تھا۔ اسلامی معاشرہ اس حد تک انحطاط کا شکار ہو چکا تھا کہ قرآن اور سنت پیغمبرؐ کے اقداری عناوین جیسے صبر، جہاد، ہجرت، عافیت اور امام زمانہ(عج) کا انتظار انحرافات اور غلط تفاسیر کی وجہ سے اپنی اصالت اور قداست کھو چکے تھے۔ رہبر معظم انقلاب، حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای بھی امام مہدی (عج) کے عقیدہ اور امام زمانہ (عج) کے انتظار کو امید، مقصد، تحریک، تلاش کا سبب قرار دیتے ہوئے اسے معاشرے اور انسان کی دلی طاقت سمجھتے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی امام زمانہ (عج) کے انتظار کو یوں بیان کرتے ہوئے امام مہدی (عج) کے بارے میں ایرانی قوم کے عقیدہ کو ابتدائے انقلاب سے لے کر اب تک اس کی کامیابیوں کا سبب شمار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کی عظیم قوم ماضی کی بنسبت آج بہت ترقی کرچکی ہے اور اپنے مضبوط اراہ سے حصول مقاصد اور بلند آرزوؤں تک پہونچنے میں بھی پائداری کا ثبوت دی رہی ہے اور وہ کسی قسم کے دباؤ اور دھمکی کے سامنے تسلیم نہیں ہوگی۔ جو قوم امام مہدی (عج) کا عقیدہ رکھتی ہو وہ کبھی بھی کمزوری محسوس نہیں کرتی اور وہ تمام قسم کی سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے اپنی عزت، ترقی اور پیشرفت کے راستے کو طے کرتی ہے اور وہ ہرگز ظالموں کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہیں ہے۔