امام خمینی (رح) کے ساتھیوں کو انکی وطن واپسی پر کس بات کا خطرہ تھا؟
1فروری 1979کو امام خمینی (رہ) کی ایران واپسی ہوئی یہ دن ان لوگوں کے لئے نا قابل فراموش دن ہے جنہوں نے شہنشاہی نظام کے خلاف امام خمینی (رہ) کی انقلابی تحریک کو جلا وطنی کے دوران بھی ان کے بیانات اور ریکارڈ شدہ تقاریر، خطابات و پیغامات کی صورت میں سنا تھا۔
ایسنا خبر رساں کی ادارے کی رپورٹ کے مطابق1 فروری 1979کو امام خمینی (رہ) کی ایران واپسی ہوئی یہ دن ان لوگوں کے لئے نا قابل فراموش دن ہے جنہوں نے شہنشاہی نظام کے خلاف امام خمینی (رہ) کی انقلابی تحریک کو جلا وطنی کے دوران بھی ان کے بیانات اور ریکارڈ شدہ تقاریر، خطابات و پیغامات کی صورت میں سنا تھا۔
پہلوی ظالمانہ حکومت کے دور میں انقلابی رہنما اور ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی، حضرت آیت اللہ سید روح اللہ موسوی خمینی (رہ) پورے ایران میں سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ ایک مرجع تقلید اور ایک عالم دین کی حیثیت سے بھی نمایاں شخصیت کے حامل تھے۔
1 فروری 1979 کو ۱۵ سال جلا وطنی کے بعد امام خمینی (رہ) کی وطن واپسی کے مقدمات ایسے شرائط میں فراہم ہو رہے تھے کہ جہاں محمد رضا پھلوی جنوری کی ستائیسویں تاریخ کو ملک سے فرار ہوگیا تھا۔ جبکہ امام خمینی (رہ) نے پہلے ہی فرما چکے تھے کہ جب تک شاہ ایران کو ترک نہیں کرے گا وہ ایران واپس نہیں آئیں گے۔
شاہ نے ایران سے خارج ہونے سے قبل تمام حکومتی امور کو شاہ پور بختیار کے سپرد کیا تھا شاہ کے جانے کے بعد شاہ پور بختیار اپنی پوری کوشش کر رہا تھا کہ امام خمینی (رہ) کی وطن واپسی نہ ہونے پائے اس نے امام خمینی (رہ) کے ساتھیوں سے کہا کہ کچھ ہفتے اس کام کو ٹال دیں۔ حقیقت میں وہ اس عرصہ میں اپنی حکومت کو مزید مضبوط بنا کےحالات پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا تھا ۔
پہلے یہ طے پایا کہ امام خمینی (رہ) 26 جنوری کو ایران میں تشریف لا رہے ہیں لیکن 22 جنوری سے ہی سڑکوں پر شہنشاہی فوج کی تعیینات اور ایرپورٹز بند کرنے کے نتیجہ میں عملی طور پر امام خمینی (رہ) کی وطن واپسی کی تاریخ پیچھے کر دی گئی۔
انقلاب کے اہم دستاویزات میں یہ بات موجود ہے کہ شاہ پور بختیار نے ہر ممکن کو شش کی تھی کہ تاکہ امام خمینی(رح) وطن واپس نہ آسکیں لیکن عوام کی ہڑتالوں اور علماء کے دھرنوں کے سامنے شاہ پور بختیار کو بھی ہار ماننا پڑی اور امام (رہ) نے فرانس سے ایران کی طرف ایسے حالات میں اپنے سفر کا آغاز کیا جہاں پہلوی حکومت کے خلاف لوگ مطاہرے کر رہے تھے اور وہ امام (رہ) کی ایران واپسی کے مشتاق بھی تھے لہذا بعض فداکاروں کی جانب سے ایر فرانس کا فلائٹ نمبر ۷۴۷ ایک جہاز کرایہ پر لیا گیا جب کہ اس جہاز پر حملہ کی افواہیں بھی بہت شائع ہو چکی تھیں جبکہ اس سلسلے میں شاہ پور بختیار کو امریکی صدر کارٹر کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
بانیِ انقلاب کے ساتھیوں کی داستانوں میں ذکر ہوا ہے کہ آخری لحمہ تک تہران کے مہر آباد ایرپورٹ پر امام خمینی (رہ) کو غائب کئے جانے یا جہاز کو اڑا دینے کا خدشہ تھا لیکن حضرت امام خمینی (رہ) نے نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ اپنا یہ سفر طے کیا۔
ایرپورٹ پر لاکھوں کی تعداد میں امام کے مشتاقین اور اصلی سڑکوں پر عوام الناس کا جمع ہو کر امام (رہ) کا استقبال ملک کی تاریخ میں بے نظیر استقبال تھا جب کہ سردی کا موسم تھا اور لوگ رات کو ہی مہر آباد ایر پورٹ پر امام (رہ) کے استقبال کے لئے تیار بیٹھے تھے، آخر کار 1فروری 1979 کو صبح ۲۷: ۹ کو سید روح اللہ موسی خمینی (رہ) ایران میں داخل ہوئے اس تاریخ میں ملکی عہدیداروں اور لوگوں کی جانب سے جشن برپا کیا جاتا ہے۔
امام خمینی (رہ) نے ایرپورٹ پر خطاب کے بعد لوگوں کی بھیڑ میں بہشت زھرا میں اسلامی انقلاب کے شھداء کے مقبرے اور لوگوں کے درمیان ایک تاریخی خطاب فرمایا۔ اس دن امام (رہ) کا معروف و مشہور جملہ یہ تھا " میں اس قوم کی حمایت سے حکومت تشکیل دوں گا "۔