شیعہ تاریخ میں نماز جمعہ کی شان و شوکت کی بازگشت ایران کے اسلامی انقلاب کی طرف ہوتی ہے۔ امام خمینی (رح) نے ایران کے تمام شہروں میں نماز جمعہ کے احیا اور اس کی تبلیغ و ترویج کو دینی اور سیاسی تبلیغ اور قومی اتحاد و یکجہتی، ایک عالمگیر عنوان سے استفادہ کیا۔
حضرت امام خمینی (رح) نے سب سے پہلی بار اپنی کتاب کشف الاسرار میں نماز جمعہ کے مسئلہ کی جانب اشارہ کیا۔ اس کے بعد (جلاوطنی کے دوران) کتاب تحریر الوسیلہ مین اس پر بسط و تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ سن 1966 ء نجف اشرف ہجرت کرنے کے ایک ماہ بعد شیخ انصاری کی مسجد میں تدریس شروع کرنے وقت فرمایا: عیسائی حضرات یہ خیال نہ کریں کہ مساجد، کلیسا اور ان کے گرجا گھر کی طرح ہے۔ مسجد اسلام کی سیاست کا مرکز رہی هے۔ خطبہ جمعہ میں سیاسی مطالب ہیں۔ جنگ سے متعلق مسائل، شہری سیاست سے متعلق مسائل یہ سب مسجد میں بیان ہوتے تھے۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد آپ نی بارہا نماز جمعہ کی عظمت سے متعلق تاکید کی ہے۔ انقلاب کی کامیابی اور نظام کے استقرار کے کچھ ماہ بعد تھوڑے ہی فاصلہ سے 27/ جولائی 1979ء کو تہران میں سب سے پہلی نماز جمعہ کے منعقد ہونے کے متعلق تاکید کرتے ہوئے اضافہ کیا:
ہفتہ میں سب کا ایک جگہ پر عظیم اجتماع اور نماز جمعہ دو خطبہ پر مشتمل ہے کہ ان دونوں خطبوں میں روز مرہ کے مسائل بیان ہوں۔ ملک اور علاقہ کی ضرورتوں پر گفتگو ہو، سیاسی مسائل بیان کئے جائیں، اجتماعی مسائل پر روشنی ڈالی جائے، اقتصادی مسائل کا ذکر ہو اور لوگ ان مسائل سے آگاہ ہوں۔
آیت اللہ طالقانی کی رحلت کے بعد جمعہ، انقلاب کے سب سے پہلے امام نے نماز جمعہ کی اہمیت کے بارے میں فرمایا:
نماز جمعہ اسلام کی سیاسی اور سماجی قدرت کا جلوہ ہے، لہذا جتنا علی شان اور معنی خیز ہوسکے اس طرح منعقد ہو۔ ہماری قوم یہ خیال نہ کرے کہ نماز جمعہ ایک عادی نماز ہے۔ اس وقت نماز جمعہ جو شان و عظمت رکھتی ہے، وہ ہمای مختصر مدت تحریک کے لئے ایک مضبوط حامی اور ہماری اسلامی انقلاب کی ترقی اور اس کے آگے بڑھنے کے لئے ایک موثر عامل ہے۔ ہماری عظیم اور عزیز قوم جہاں تک ہوسکے اس اسلامی مورچہ کی مضبوطی اور پایئداری کے ساتھ حفاظت کرے تا کہ اس کی مدد سے غداروں کی سازشیں اور مفسدین کی چالیں ناکام ہوں۔
جمہوری اسلامی ایران کے بانی امام خمینی (رح) نے ایک دوسری بیان، ائمہ جمعہ و جماعات کی عالمی کانفرنس میں فرمایا:
نماز جمعہ سب سے بڑا اسلامی موجود اور ہمارے اسلامی انقلاب کا ایک نتیجہ ہے۔ اگر اس اسلامی انقلاب نے ہمیں صرف نماز جمعہ کی ہی دولت سے نوازا ہوتا تو ہماری ملت اور مسلمانوں کے لئے کافی ہوتا۔
دلچسپ یہ ہے کہ حضرت امام خمینی (رح) نے ہر قوم و ملت کے درمیان رائج بعض عقائد کے خلاف عورتوں کو بھی نماز جمعہ میں شریک ہونے کی تشویق فرمائی۔ آپ سے جو ایک سوال ہوا وہ یہ ہے کہ کیا نماز یومیہ اور نماز جمعہ میں عورتوں کی شرکت مکروہ ہے؟ امام نے جواب دیا: مکروہ نہیں ہے۔ بلکہ بعض موارد میں مطلوب ہے۔
امام (رح) کا نماز جمعہ کے سیاسی پہلواور اس کے شان و شوکت کے منعقد کرنے کی ضرورت آپ کے وصیت نامہ میں بھی قابل مشاہدہ ہے۔ وہاں پر فرماتے ہیں:
نماز جمعہ اور جماعتوں سے کہ نماز کا سیاسی رخ بیان کرتی ہیں، سے ہرگز غفلت نہ ہو۔ کیونکہ یہ نماز جمعہ جمہوری اسلامی ایران کے لئے خدا کی عظیم ترین عنایت ہے۔
نماز جمعہ کے احیا کے سلسلہ میں امام کا یہ واضح اور قطعی بیان اسلامی و سیاست، اتحاد و یکجہتی کی ترکیب کا ایک جلوہ ہے۔ اس کے مقام و مرتبہ اور کردار کو بیان کرتا ہے۔ نیز جمعہ کے بلند و بالا مقام کے سلسلہ میں امام کے حکم، پیغام اور تقریروں میں جو موجود ہے واضح طور پر اس کے سیاسی اور سماجی پہلو کو بیان کرتا ہے۔ آپ نے اس قسم پیغامات میں یا عوام سے خطابات میں یا ائمہ جمعہ و جماعات سے ملاقات میں، نماز جمعہ کو "محکم قلعہ"، "اسلامی محاذ"، اہم امر"، "وحدت آفرین اور دشمن شکن فریضہ"، "نماز پرصلابت جمعہ"، "فریضہ الہی" اور "وحدت بخش نماز" کے عنوان سے یاد کیا ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ امام خمینی (رح) کے اکثر و بیشتر وکلا جو ایران کے مختلف شہروں میں دینی و مذہبی سرگرمی دکھا رہے تھے وہ انقلاب کی کامیابی کے بعد اسی جگہ پر ائمہ جمعہ کے عنوان سے منصوب ہوگئے اور انہوں نے زیادہ سے زیادہ اور وسیع پیمانہ پر لوگوں کو جوڑنے کا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ائمہ جمعہ کے چائنل نے وکلاء کے نظام کی ترتیب وار کام کئے۔ ملک کے مختلف علاقے اس سلسلہ مراتب نظام میں چند اصلی اور صوبائی علاقہ میں تقسیم ہوئے اور ہر علاقہ میں ایک ممتاز شخصیت امام جمعہ کے عنوان سے منصوب ہوئے، اس کے بعد دیگر شہروں کے ائمہ جمعہ کی تعیین ہوئی ہے۔