آزمایش الہی اور انسان کاعکس العمل
آزمایش الہی میں انسان کاجوعکس العمل ہوتاہےاسکےعلاوہ جب خارج میں دیکھتے ہیں تومعلوم ہوتاہےکہ بعض لوگ شکرخدا بجا لاتے ہیں اوربعض لوگ نالہ فریادکرتےہو ئے ناشکری کا اظہار کرتے ہیں۔ تو قرآن مجید نے بھی ان دو عکس العمل کی طرف اشارہ کرتےہو ئے مختلف آیات میں اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ - جب حضرت سلیمان نے تخت بلقیس کو اپنے آنکھوں کے سامنے دیکھا تو فرمانے لگا یہ میرے پروردگار کا فضل ہےتاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر نعمت کرتا ہوں یا کفران ۔
2- وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِين) اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہےجو اللہ کی یکطرفہ بندگی کرتا ہے، اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو مطمئن ہو جاتا ہےاور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تومنہ کے بل الٹ جائے، اس نے دنیا میں بھی خسارہ اٹھایا اور آخرت میں بھی، یہی کھلا نقصان ہے۔
- فَأَمَّا الإنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ*وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَن) (فجر/16-15)
جب انسان کو اس کا رب آزما لیتاہے پھر اسے عزت دیتا ہےاور اسے نعمتیں عطا فرماتا ہےتوکہتاہے: میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے۔اور جب اسے آزما لیتاہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہےتو وہ کہتاہے: میرے رب نے میری توہین کی ہے۔
تو خدا وند عالم انسان کو جزاء و ثواب دینے میں آزمایش کیوں کرتا ہے؟ کیا خدا کے لئے یہ ممکن نہیں کہ بغیر کسی آزمایش کے ثواب و جزاء دیتا ؟ جب انسان ان جیسی آیات کی طرف رجوع کرتا ہےتو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔اس سوال کے جواب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ خداوند عالم رحمن و رحیم ہےاور اسکی رحمت بہت ہی وسیع اور کبھی ختم ہونے والی نہیں ہےجس طرح سے کہ وہ قدیر و جبار یعنی سخت عذاب دینے والا ہےاور اس کے تمام اوصاف سے مربوط ہےچونکہ خدا حکیم ہےاور حکیم کا کام مقصد و ہدف کے ساتھ ہوتا ہے.
اگرخداوندعالم بغیر کسی آزمایش اورامتحان کے ثواب وجزاء دے دیں تو یہ خدا کی عدالت کے خلاف ہےچونکہ ایک بندہ اپنی پوری زندگی میں خطا ئیں انجام دیتا رہے اور دوسرا ہمیشہ خدا کی اطاعت میں رہے تو ان دونوں کو مساوی قرار دینا عقل بھی نہیں مانتی ہےاور قرآن کے مخالف اور خدا کی عدالت کے خلاف بھی ہےکیوں کہ قرآن کا اصول یہ ہےکہ وہ کبھی بھی فاسق وعادل اورمتقی وکافرکوبرابر قرارنہیں دیتاہےخدا وند عالم کی حکمت و عدالت کا تقاضا یہی ہےکہ برے اور اچھے لوگ اور ظالم و عادل کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے ہیں ۔
معصومین علیھم السلام کی روایات کی طرف توجہ دینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ خدا وند عالم کا اپنے بندوں کی آزمایش کرنا ان کے لئے رحمت اور فضل و کرم ہے۔ امام علی علیہ السلام اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس خدا کا شکر ہےکہ جس نے ہمارے پیروکاروں کو رنج و بلاء میں مبتلا کرکے ان کے گناہوں کا بوجھ کم کیا اور انہی بلاؤں کے ذریعے سے انکی عبادات کو ضایع ہونے نہ دیا تاکہ وہ جزاء کے مستحق بن جا ئیں ۔