جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ کچھ علماء دیگر تمام عراق بدر کئے ہوئے لوگوں کی طرف خالی ہاتھ ایران آگئے تھے۔ اس وجہ سے حوزہ علمیہ قم کے علماء نے ان لوگوں کہ جو بعض دوست اور آشنا تھے؛ کے لئے کچھ زندگی کے ضروریات ، گھر لے جاکر پہونچائیں اور ان کے لئے اسباب زندگی فراہم ہونے تک ان کی مہمان نوازی کی، اس طرح سے نکالے ہوئے ایک عالم دین جناب آقا راستی کاشانی تھے کہ ایران آنے کے ابتدائی دنوں میں ضروریات زندگی نہ ہونے کی وجہ سے آذر روڈ پر واقع مسجد رضویہ میں دیگر لوگوں کے ساتھ رہ رہے تھے اور وہیں پر تھے کہ آقا منتظری ان کی صورتحال سے باخبر ہوگئے اور مسجد رضویہ گئے اور بڑے ادب و احترام سے انہیں لے آئے۔
خود میرے پاس بھی چھوٹا مکان تھا لیکن اس کے باوجود میں نے ایک کمرہ رکھ لیا اور باقی کمرے اور سرداب و غیرہ کچھ علماء کے خانوادہ کے حوالے کردیے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ زندگی کے اسباب اور کتابیں لے کر آئے تھے تو انہیں اسی طرح آنگن میں ڈال دیا گیا تھا۔میرا گھر اس قسم کے اسباب اور اثاثہ سے بھرا ہوا تھا۔
ایک دوسرے عالم جنھیں اسی وقت عراق سے نکالا گیا تھا، آیت اللہ شیخ جواد تبریزی تھے جو موجودہ مراجع میں شمار ہوتے تھے۔لیکن کچھ دنوں بعد ان کے عراقی داماد نے ان کے خانوادہ کو کچھ وسائل زندگی کے ہمراہ ایران بھیج دیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ آیت اللہ کوکبی اور آیت اللہ ملکوتی جیسے کچھ ایرانی علماء اور روحانیوں بھی اس سے پہلے نکالے جاتے ہیں لیکن ان کے ماننے والے اور آشنا افراد پہلے سے ان کی آمد سے باخبر تھے لہذا ان کے لئے گھر اور زندگی کے ضروریات آمادہ کئے ہوئےتھے لہذا اس اعتبار سے انہیں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔