شاه کے فرار کے بارے میں اس کی بیوی فرح کا بیان
مورخہ 16 جنوری سن 1979 کو شاہ ایران چھوڑ کر مصر جانے پر مجبور ہوا کیوں کہ اس کے قریبی ترین حامیوں اور آقاؤں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔
ایرانی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق مورخہ 16 جنوری سن 1979 کو شاہ ایران چھوڑ کر مصر جانے پر مجبور ہوا کیوں کہ اس کے قریبی ترین حامیوں اور آقاؤں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔
شاہ کی بیوی فرح دیبا کی زبانی اقرار اور شاہ کے ایران میں موجود ہونے اور اس کے ہمسفر ملک نکلنے کی داستان اس طرح ہے کہتی ہے میرا اور محمد رضا کا اشک بھرا سفر 16 جنوری کو شروع ہوا۔ ایران کے داخلی امور میں امریکہ کی مداخلت اتنی زیادہ بڑھ چکی تھی کہ ہم کو بھی یہاں کے امور سے باخبر نہیں کرتے تھے مثلا جنرل رابرٹ ہایزر مدتوں سے ایران میں رہ کر فعالیت کررہا تھا اور ہم کو بالکل ہی خبر نہیں تھی۔ جب محمد رضا کو پته چلا کہ جنرل رابرٹ ہایزر تہران میں ہے تو بہت زیادہ مشکوک ہوا اور مجھ سے کہا: ہم لوگ بختیار کے توسط اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے ہی ایران کو ترک کردیں گے، جس دن بختیار پارلیمنٹ گیا تھا اس دن ہم لوگ ائیرپورٹ پر تھے اور پارلیمنٹ کی داستان ٹیلیفون سے سن رہے تھے۔
آخری دنوں میں شاہ کی بیوی فرح نے شاہ کو مقام سلطنت سے استعفاء دلانے اور اس کی جگہ پر مقام نیابت سپرد کرانے کی کوشش کی لیکن شاہ نے قبول نہیں کیا اور کہا کہ یہ کسی مشکل کو حل نہیں کرے گا۔ آخر کار شاہ نے 16 جنوری سن 1979 فرار کرنے ہی کو ترجیح دیا، حکومتی گھرانے میں سے صرف فرح ہی رہ گئی تھی کہ آخر کار وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ ایران سے نکل گئی۔
فرح دیبا نے اپنی داستان اس طرح نقل کی ہے: محمد رضا شاہ وطن چھوڑنے پر مجبور تھا لیکن اس بات سے بہت زیادہ افسردہ اور غمگین تھا۔ ہم لوگوں نے 1/ بجے دن میں شاپور بختیار (صدر جمہوریہ) ڈاکٹر جواد سعید (شورای ملی کے رئیس) ڈاکٹر علی قلی اردلان (وزیر دربار) اور فوج کے اعلی عہدیدار اور ملک کی بلند ہستیوں کو مہر آباد ائیرپورٹ پر خداحافظ کر کے تہران کو ترک کردیا۔
شاہ کی بیوی اس داستان کو بیان کرتے ہوے کہتی ہےمحمد رضا نے ہوائی جہاز کی سیڑھیوں کے نیچے نامہ نگاروں کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں چند دن آرام کرنے کے لئے مصر جارہا ہوں کیوں کہ اب مجھے آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔
فرح اپنی زندگی کی دوسری یادوں میں کہتی ہیں:محمد رضا کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں ہم لوگ بھی افغانستان حکومت کے سربراہ جنرل داوود خان کہ جو اپنے خاندان کے سارے ممبروں کے ساتھ پھانسی کی سزا کا مستحق ہوا؛ کی طرح نہ ہوجائیں۔ محمد رضا نے صحیح دور اندیشی کی بنیاد پر پہلے ہی اپنے اور میرے خاندان والوں کو ملک سے باہر بھیج دیا تھا۔ میرے بچے امریکہ میں تھے۔ محمد رضا کے گھرانے کے اکثر لوگ جز شمس اور اس کے شوہر کے سب امریکہ میں تھے اور ان کی جگہ پر امن تھی۔ لیکن میں اور محمد رضا مہینوں سے اس بات سے پریشان رہتے تھے کہ کہیں ہم لوگ انقلابیوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔