ٹرامپ نے عراق کا خفیہ دورہ کیوں کیا؟
شام سے انخلاء کے اعلان کے بعد بہت ساری تنقیدوں کا کوئی معقول جواب دینے کے لئے ٹرمپ کو عجلت میں عراق کے خفیہ دورے پر جانا پڑا تاکہ اندرون ملک دباؤ کا ازالہ کرسکیں اور سب کو یقین دلا سکیں کہ امریکہ نے اپنی یہودی ـ صہیونی رفقائے کار کو تنہا نہیں چھوڑا ہے۔
مارچ 2003ع میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو جنگ کے آٹھ مہینے بعد وقت کے صدر جارک واکر بش نے عراق کا دورہ کیا، بارک اوباما نے 2009ع میں اپنی صدارت کے پہلے سال ہی عراق کا دورہ کیا لیکن ٹرمپ کو شدید قسم کے دباؤ کا سامنا تھا کہ ابھی تک دور افتادہ علاقوں میں تعینات امریکی فوجیوں سے ملنے کیوں نہیں گئے؟ لیکن صرف یہی بات نہیں تھی جس نے ٹرمپ کو عراق جانے پر مجبور کیا۔
ہوا یوں کہ امریکی صدر کا طیارہ، عراقی حکومت کی اطلاع کے بغیر بدھ اور جمعرات کی درمیان شب کو بغداد کے مغرب میں صوبہ الانبار کے "عین الاسد ہوائی اڈے" پر اترا۔ اس سفر پر مختلف ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔
ٹرمپ نے شام سے اپنے فوجی دستوں کے انخلاء کا اعلان کیا تو انہیں امریکہ کے اندر ریپبلکنز، ڈیموکریٹس اور صہیونیوں کے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔ سب کہہ رہے تھے کہ امریکی صدر نے اپنے حلیف (یہودی ریاست) کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور عملی طور پر شام کو ایران کے سپرد کردیا ہے۔
مبصرین کے مطابق، ٹرمپ نے ان الزامات سے بچنے کے لئے اس عجلت آمیز دورے کا اہتمام کیا تا کہ اندرونی دباؤ کو زائل کردیں اور واضح کریں کہ انھوں نے اپنے صہیونی رفقائے کار کو تنہا نہیں چھوڑا ہے۔
عین الاسد ہوائی اڈے میں موجود امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: "ہم عراق سے 5200 امریکی فوجیوں کے انخلاء کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن شام سے انخلاء کا عمل بلا تاخیر مکمل ہوگا۔ ہم عراق سے شام پر حملے بھی کرسکتے ہیں"۔ عراق سے شام پر حملوں کے سلسلے میں ٹرمپ کے موقف کا مقصد امریکہ میں موجود یہودی لابیوں کو یہ یقین دلانا تھا کہ امریکہ یہودی ریاست کو تنہا چھوڑنے کا بھی ارادہ نہیں رکھتا۔
ٹرمپ نے دوسری طرف سے عراقی قوم اور حکومت کی توہین کا ارتکاب کیا اور البتہ یہ بھی اعتراف کیا کہ امریکہ مزید دنیا کے پولیس مین کے کردار کو جاری نہیں رکھ سکتا۔
بےشک امریکی صدر کا یہ موقف ایک عبوری دور کی نشاندہی کررہا ہے اور یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ امریکہ اپنی بالادستی قائم رکھنے میں بے بسی کا شکار ہوچکا ہے؛ امریکی ہرگز اس صورت حال کو پسند نہیں کرتے مگر ان کے سوا اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے اور ٹرمپ نے امریکی بالادستی کا بخوبی ادراک کرلیا ہے لیکن انہیں اپنے ناقدین کو بھی راضی رکھنا پڑ رہا ہے۔
ٹرمپ کا مستکبرانہ رویہ
اس دورے میں ٹرمپ پیشگی اطلاع کے بغیر عراق میں داخل ہوئے، اور نہ صرف عراقی صدر اور عراقی حکام سے ملنے بغداد نہیں گئے بلکہ ان سے کہا کہ اگر مجھ سے ملنا ہے امریکی اڈے میں آ جائیں۔ لیکن عراقیوں نے ملنے سے انکار کیا چنانچہ وہ عراقی حکام سے ملے بغیر ـ صرف تین گھنٹے گذار کر ـ عراق سے چلے گئے۔
امریکی صدر کے اس طرز عمل نے عراقی حکام اور سیاسی راہنماؤں کو ناراض کردیا اور عراق میں امریکہ مخالف جذبات ایک بار پھر بھڑک اٹھے، جس کی وجہ سے عراقی حکام اور ذمہ دار سیاستدانوں نے امریکہ کے خلاف دو ٹوک موقف اپنایا۔
سب سے پہلا موقف مقتدا صدر گروپ کے نائب العمیری کی طرف سے سامنے آیا جنہوں نے ٹرمپ کے اس دورے کی شدید مذمت کی اور عراق میں امریکی کردار کو تخریبی قرار دیا۔ مقتدا صدر کے سیاسی اتحاد "السائرون" نے پارلیمان سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد ایک قانون منظور کرکے امریکیوں کو عراق سے نکال باہر کرے۔