خداوند رئوف و مہربان نے اپنی تمام مخلوقات اور موجودات کے درمیان انسان کو "خلیفة اللہ" اور اپنے نمائندہ کے عنوان سے انتخاب کیا ہے اور اسے انسانی کرامت کے نام سے گراں قدر اور بیش بہا اور انمول عطیہ عنایت فرمایا ہے۔ اسے اشرف المخلوقات کے تمغہ سے نوازا اور اس الہی، بے نظیر اور قیمتی عطیہ کے سامنے فرشتوں کو سر تعظیم جھکانے کا حکم دیا ہے کیونکہ تعظیم اور سجدہ، احترام، خضوع و خشوع، عاجزی و انکساری کا سب سے بڑا مرتبہ ہے کہ خداوند عالم کے علاوہ کسی اور کے سامنے سجدہ کرنا شرک شمار ہوتا ہے اور شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
لیکن انسانی کرامت، انسان کی عظمت و شرافت اس مرتبہ تک ارزش رکھتی ہے اور قیمتی ہے کہ یہ تعظیم خدا کے حکم سے عمل میں آتی ہے اور جس فرشتہ نے حکم الہی کی تعمیل نہیں کی؛ خدا کے غیظ و غضب کا نشانہ بنا اور درگاہ الہی سے راندہ گیا۔
بیشک انسان وہ نایاب گوہر، قیمتی خزانہ اور انسانی کرامت کا وہ انمول عطیہ ہے جس نے اس کرہ خاکی اور دنیاوی زندگی میں اس بلند و بالا انسانی کرامت اور شرافت کو خود ہی جنم دیا ہے۔ یہ اعلی خصلت انسان کے اندر خدائی روح سے وجود میں آئی اور انسان کا حقیت کا جزء بن گئی۔ واضح رہے کہ جو اس دنیا میں انسان کی انسان منحصر بہ فرد خصوصیت کی توہین کرے اور اپنے ہم نوع انسانوں کی کرامت اور عزت کا پاس و لحاظ نہ کرے اور اسے مخدوش بنائے تو وہ ابلیس سے اچھی سرنوشت کا مالک نہیں ہوگا۔
اہلبیت (ع) کی سیرت میں انسانی اصول بالخصوص انسانوں کی کرامت کی رعایت کا خاص مقام ہے کہ اس کا کچھ گوشہ نہج البلاغہ کے خطبوں میں ملاحظہ ہوتا ہے۔ قرآن میں "کریم" کی لفظ استعمال ہوئی ہے "انہ لقرآن الکریم" یہ لفظ عصر جاہلیت میں بھی کلیدی حیثیت رکھتا تھا اور یہ خانوادگی شرافت اور نسلی بزرگی کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ کریم اسے کہتے تھے جو خانوادگی شجرہ نامہ میں نامدار، ممتاز، نمایاں اور عزت و شہرت کا حامل ہوتا تھا۔ قدیم اعراب انسانی فضلیت کے باب میں جو تصور رکھتے ہیں، بذل و بخشش، سخاوت، گشادہ دلی شخص کی شرافت و بزرگی کی جلوہ نمائی کا آشکار اور محسوس ترین نمونہ شمار ہوتا تھا۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: برائیوں سے دوری، خوش اخلاقی، پستیوں، ذلت اور عذاب الہی سے دوری، کرم ہے۔ حضرت علی (ع) کی نظر میں بلند ہمتی، بلند و بالا اغراض و مقاصد تک پہونچنا، پستیوں سے دوری اور گھٹیا مقاصد سے اجتناب ہی کرم ہے۔ حضرت علی (ع) کی نظر میں کرامت انسانی کی حفاظت کا لازمہ کسی دوسرے انسان کی غلامی اور بندگی سے انکار اور غیر معرف قیود سے آزادی ہے۔
عیسائی دانشور "جرج جرداق" کی تعبیر میں یہ ہے:
ابوطالب کے بیٹے علی کی نظر میں حکومت خانوادگی افتخار نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر عزت اور منزلت استوار ہو یا خاندان کی قدیمی شرافت نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر تخت و تاج رکھا جائے اور لوگوں کو اپنی بندگی اور غلامی میں لا یا جائے۔
امام خمینی (رح) نے بھی انسانوں کے درمیان شہری حقوق کے اعتبار سے کسی فرق کو اہمیت نہیں دی ہے بلکہ اپنے بیانات، تقریروں اور خطوں میں انسانوں کی ذاتی کرامت کی جانب توجہ دلائی اور اسے اہمیت دی ہے اور اقلیت و اکثر کے فرق کو حقوق کے دائرہ میں مٹادیا ہے۔