ریبع الاول

ربیع الاول کا مہینہ دیگر تمام مہینوں کی بہار ہے

ربیع الاول کا مہینہ دیگر تمام مہینوں کی بہار ہے

ربیع الاول کا مہینہ دیگر تمام مہینوں کی بہار ہے

تکوینی لحاظ سے انسان کے کمال میں مختلف قسم کا اثر رکھنے والے لمحات، دن ، رات اور مہینوں سے ہٹ کر کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ جن کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور بعض لمحات اور ایام ایک خاص قسم کے تقدس کے مالک ہوتے ہیں۔

اولیائے الہی نے حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی ولادت باسعادت کو ماہ ربیع الاول کا ایک اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں اور اسی مبارک واقعہ کی وجہ سے ہی اس مہینے کو بہار کا نام دیتے ہیں۔

بنی نوع انسان کو دین اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی جتنی برکات اور مہربانیاں حاصل ہوئی ہیں وہ کامل ترین انسان یعنی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے مقدس وجود کی برکت کی وجہ سے ہیں کہ جو اس مہینے میں اس دنیا میں آئے تھے۔

اس مہینےکی شرافت دیگر تمام مہینوں سے زیادہ ہے اور یہ مہینہ حقیقت میں دیگر مہینوں کی بہار ہے کیونکہ نبی اکرم (ص) کے نورانی وجود کی وجہ سے ہی تمام شرافتیں، رحمتیں، دنیاوی اور اخروی عنایات اور نبوت، امامت ، قرآن اور شریعت نازل کی گئی ہے۔

یہ مہینہ گرانقدر ترین مہینہ ہے۔ اس مہینے کی مثال دیگر مہینوں کی نسبت ایسے ہی ہے کہ جس طرح دیگر لوگوں کے درمیان حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کا مقام ہے۔ نبی اکرم (ص) نے خود دیگر لوگوں کے درمیان اپنی مثال کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

در حقیقت میری اور تمہاری اور انبیاء کی حکایت اس گروہ کی حکایت کی طرح کہ جو ایک بیابان اور تپتے ہوئے صحرا میں جا رہے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ جتنا سفر طے کیا وہ زیادہ تاھ  یا ابھی جو باقی ہے وہ زیادہ ہے۔ وہ تھکے ماندے ہوے ہیں اور ان کا ذخیرہ بھی ختم ہو گیا ا ہے اور بیابان کے وسط میں پڑے ہوئے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اب ان کی زندگی کے آخری لمحات ہیں۔ اس وقت اچانک نیا لباس پہنے ایک مرد ظاہر ہوتا ہے کہ جس کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے۔ وہ لوگ کہتے ہیں: یہ مرد ابھی ابھی آبادی سے آیا ہے۔ جب وہ ان کے پاس پہنچتا ہے تو کہتا ہے کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ وہ لوگ کہتے ہیں: آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم تھکے ماندے ہیں اور ہمارا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے اور اس بیابان کے وسط میں بے جان پڑے ہوئے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ زیادہ راستہ طے کر لیا ہے یا کم۔ وہ مرد کہتا ہے کہ اگر میں تمہیں ٹھنڈے اور میٹھے پانی اور سرسبز باغات کی طرف لے کر جاؤں تو مجھے کیا دو گے ؟ وہ کہتے ہیں: تم جو کچھ کہو گے ہم کریں گے۔

وہ مرد انہیں سرسبز باغات اور ٹھنڈے اور میٹھے پانی تک لے کر جاتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ان سے کہتا ہے: اٹھو تا کہ میں تمہیں اس سے بھی زیادہ سرسبز باغات اور زیادہ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشموں تک لے جاؤں۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر لوگ کہتے ہیں: ہم اتنی مقدار پر ہی راضی ہیں لیکن ایک گروہ کہتا ہے: مگر تم نے اس مرد کےساتھ عہد و پیمان نہیں باندھا ہوا تھا کہ اس کی نافرمانی نہیں کرو گے۔ اس نے تم سے سچ بولا تھا اور اب بھی پہلی بات کی طرح اس کی بات سچی ہے۔ پس یہ گروہ اس کے ساتھ چل پڑتا ہے اور وہ انہیں سرسبز باغات اور مزید ٹھنڈے پانی تک پہنچا دیتا ہے۔ لیکن باقی بچ جانے والے لوگ دشمن کے حملہ میں مارے جاتے ہیں ۔

ای میل کریں