عزاداری

عزاداری کا فلسفہ

خاندان رسولخدا (ص) بالخصوص سرکار سید الشہداء امام حسین (ع) کی محبت اور مودت نے بیج کی طرح ہمارے دلوں میں ڈال دیا ہے

ہماری دینی تہذیب اور ثقافت میں شیعوں کے اولیائے الہی اور ائمہ معصومین (ع) سے دوستی، لگاؤ اور محبت کا ایک پروگرام "عزاداری" اور سوگواری ہے۔ یعنی ان عظیم ہستیوں اور امام حسین (ع) اور ائمہ معصومین (ع) کے جاں نثار ساتھیوں اور اصحاب و انصار کی شہادت کی یاد منانا، ان کی قربانی کا تذکرہ کرنا، ان کے بے مثال جاں نثاری کا ذکر کرنا اور ان کے سوگ میں ماتم کرنا اور گریہ کرنا ہے۔

عزاداری آغاز سے ہی خود رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کے دستور، حکم اور فرمان سے کی گئی ہے اور رفتہ رفتہ خاندان رسولخدا (ص) کی وفادار امت اور آپ کی عترت کے شیدائیوں کے درمیان ایک "دینی سنت" کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ رسولخدا (ص) نے فرمایا: "حسین کی شہادت کے لئے مومنین کے دلوں میں حرارت اور گرمی ہے جو کبھی سرد اور خاموش نہیں ہوتی۔"

  ہم لوگ اس خداداد شوق و رغبت اور جوش و خروش کو اپنے دل و جان کی گہرائی میں محسوس کرتے ہیں اور پوری زندگی چشمہ کی طرح اس صاف و شفاف چشمہ سے نوش کرتے ہیں اور اس کی تازگی محسوس کرتے ہیں۔

خاندان رسولخدا (ص) بالخصوص سرکار سید الشہداء امام حسین (ع) کی محبت اور مودت نے بیج کی طرح ہمارے دلوں میں ڈال دیا ہے لہذا اس بیج کو پروان چڑھانا ہماری ذمہ داری ہے اور اس عشق و محبت کے پودے کو مثمر ثمر بنائیں اور پوری عمر اس کے ثمرات سے بہرہ مند ہوں۔

دوسری طرف ائمہ معصومین (ع) کی شہادت اور رحلت کے ایام میں سوگواری اور عزاداری کرنا، ان عظیم ہستیوں کے نام، ان کی یادوں اور تذکروں کو زندہ رکھنا اور دوسری طرف ان پاکیزہ نفوس کی تعلیمات پر عمل کرکے ان کی یادوں اور ناموں کو زندکہ رکھنا اور اپنے الہی اور انسانی فریضہ پر عمل کرنا ہے۔

ان شعار اللہ کی تعظیم اور اسے احیاء کرنے کے آثار و برکتیں خود امت مسلمہ کی طرف پلٹتی ہیں اور اس راہ سے یہ لوگ اپنے دینی پیشواؤں اور اولیائے دین سے اپنی محبت، اپنے لگاؤ اور عشق کا اظہار کرتے اور اپنے جذبات کا ثبوت دیتے ہیں۔ لہذا اس دینی شعائر کا مقصد اور فلسفہ زیادہ سے زیادہ پہچانا جائے، اس کے سابقہ کی طرف اشارہ کیا جائے اور عصر حاضر میں اس دیر پا مذہبی سنت سے فیضیاب ہونے کی راہوں کی طرف بھی اشارہ ہو۔

حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:

"میں اس قسم کی مجلسوں کو دوست رکھتا ہوں لہذا ہمارے امر (امامت) کو زندہ رکھو، خدا اس پر رحمت کرے جو ہماری امر (ہماری راہ اور ہمارےمقصد) کو زندہ رکھے۔"

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خاندان رسالت کی یادوں، ان کی ناموں اور ان کی خدمات کا (ہر خوشی، غم، ان کی ولادت اور شہادت) کے موقع پر تذکرہ کرو اور ان کے فضائل اور مناقب بیان کرو کیونکہ اس سے انسانیت اور آدمیت زندہ ہوتی ہے۔ انسانی اقدار اور اصول کی پاسداری ہوتی ہے۔ ظلم و جور کی نقاب کشائی اور حق و صداقت کی جلوہ نمائی ہوتی ہے۔ اس میں امن و امان اور صلح و آشتی، تعلیم و تربیت کا پیغام ہوتا ہے۔ کسی شخص اور شخصیت کی ذاتی تعریف و توصیہ نہیں ہے بلکہ اس کے الہی اور انسانی فرائض کا ذکر ظلم و بربریت اور درندگی و حیوانیت کے خاتمہ کا باعث ہوگا، ظلم و زیادتی تجاوز و ستمگری کی بنیاد اکھڑ جائے گی۔ فرعونیت اور شدادیت، سفیانیت اور یزیدیت کا جنازہ نکل جائے گا۔ انسانوں کو عزت و شرافت، عظمت و بلندی نصیب ہوگی۔

امام خمینی (رح) نے فرمایا ہے:

"ہم لوگ ان گریہ و زاری، نوحہ و مرثیہ خوانی، شعر خوانی اور نثر ونظم خوانی اور خطابت و ذاکری سے اس مکتب کو حفظ کرنا چاہتے ہیں جس طرح اب تک محفوظ رہا ہے۔ "

ای میل کریں