مباہلہ کی روداد صدر اسلام کی ہے۔ جب رسولخدا (ص) اور آپ کے اہلبیت (ع) ایک طرف اور نجران کے عیسائی دوسری طرف مباہلہ یعنی ایک دوسرے پر لعنت اور بد دعا کرنے کے لئے آمادہ ہوئے۔
نجران کے عیسائی مدینہ آئے ہوئے تھے تا کہ رسولخدا (ص) کی دعوت کی صحت کے بارے میں تحقیق کریں اور آنحضرت سے دلیل پیش کرنے پر اتر آئے۔ آخر کار ان کی بحث اس موڑ پر آگئی کہ محمد (ص) نے ان سے مباہلہ کرنا چاہا۔ دونوں فریقین مقام مباہلہ پر آئے۔ جب عیسائیوں نے دیکھا کہ محمد، علی ، فاطمہ اور حسن و حسین جیسے عزیزوں کے ہمراہ مباہلہ کرنے آرہے ہیں تو وہ لوگ مطمئن ہوگئے کہ اگر محمد خود مطمئن نہ ہوتے تو اپنے خاندان کی جان خطرہ میں نہ ڈالتے۔ یہ سوچ کر وہ لوگ مباہلہ کرنے سے منصرف ہوگئے۔ عائشہ سے منقول ہے کہ رسولخدا (ص) نے اسی دن اپنے ہمراہ چاروں افراد کو کالی عبا کے نیچے جمع کرکے اس آیت کی تلاوت کی: خداوند تم سے ہر رجس و کثافت کو دور کرنا چاہتا ہے اور ہر طرح سے پاک و پاکیزہ بنانا چاہتا ہے۔
یہ واقعہ مسلمانوں کی طرف سے اہلبیت کی ایک نمایان شان شمار ہوتی ہے اور اس امر کے اثبات پر ایک دلیل ہے کہ اصحاب کساء علی، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔ یہ واقعہ 24/ ذی الحجہ سن 8 ق کو پیش آیا ہے۔
اہلسنت کے بڑے عالم دین زمخشری اپنی کتاب تفسیر کشاف میں اصحاب کساء (جو لوگ مباہلہ کے دن پیغمبر (ص) کے ساتھ تھے) کی فضلیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
مباہلہ اصل میں "بھل" سے رہا کرنے، آزاد کرنے، کسی چیز سے قید و بند کو ہٹانے کے معنی میں ہے۔ لیکن مباہلہ ایک دوسرے پر لعنت کرنے اور ایک دوسرے کے لئے بد دعا کرنے کے معنی میں ہے۔
نجران کا حصہ حجاز اور یمن کے سرحدی علاقہ پر واقع ہے۔ اسلام کے آغاز کے وقت یہ علاقہ حجاز کے عیسائیوں کا تھا اور وہاں کے لوگوں کے کسی وجہ سے بت پرستی چھوڑ کر عیسائی دین کے پابند ہوگئے تھے۔
آیہ مباهلہ
"جب بھی تم سے کوئی علم کے بعد بحث و جدال کرے تو ان سے کہدو تم اپنے بیٹوں کو لاؤ میں اپنے بیٹوں کو، تم اپنی عورتوں کو لاؤ میں اپنی عورتوں کو، تم اپنے نفسوں کو لاؤ میں اپنے نفس کو لاؤں، اس کے بعد مباہلہ کریں اور جھوٹے پر خدا کی لعنت قرار دیں"
آیہ مباہلہ کو رسولخدا (ص) اور آپ کے اہلبیت (ع) کی شان میں شیعوں کے علاوہ تقریبا 60/ اکابر علمائے اہلسنت نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ اس آیت کے مصداق، علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین یعنی پیغمبر اسلام (ص) کے اہلبیت۔
1۔ مسلم بن حجاج نیشاپوری اپنی کتاب کی ج 1، ص 120، 2۔ احمد بن حنبل، کتاب مسند، ج 1، ص 185، مطبوعہ مصر، 3۔ طبری اپنی مشہور تفسیر اس آیت کے ذیل میں ج 3، ص 192، 4۔ حاکم کی کتاب مستدرک کی ج 3، ص 150، 5۔ واحدی نیشاپوری کتاب اسباب النزول، ص 74۔
اسی طرح دیگر اکابر علمائے اہلسنت نے اپنی اپنی کتابوں میں اس آیت کی تفسیر میں اہلبیت محمد (ص) کی طرف اشارہ اور تصریح کی ہے۔
حضرت فاطمہ الزہراء (س) کے فضائل کے بارے میں حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
فاطمہ زہرا (ع) خاندان وحی کا افتخار ہیں اور سورج کی طرح اسلام کی تقدیر پر درخشاں ہوتی ہیں۔ ایسی خاتون جس کے فضائل و مناقب پیغمبر اکرم (ص) کے لامتناہی فضائل و کمالات کے ہم پلہ ہیں۔ ایسی خاتون کہ جس کے بارے جو کوئی نقطہ نظر سے کچھ کہے یا لکھے اس کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ خاندان وحی سے جو احادیث ہم تک پہونچی ہیں وہ سامعین کی فہم و فراس کے مطابق تھیں اور دریا کو کوزہ میں سمیٹنا نہیں جاسکتا اور دوسروں نے جو کچھ بھی کہا ہے۔ اپنی فهم و فراست کے بقدر کہا ہے نہ اس کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے۔ (صحیفہ امام ، ج 12، ص 274)