روشن فکروں اور اسلامی ممالک کے لئے نمونہ پیش کرنے والے اس نکتہ سے غافل رہے کہ اسلام میں عورت مالکیت، میراث، تعلیم اور اس کے علاوہ دیگر بہت سارے حقوق سے بہرہ مند ہے اور خانوادہ کے مضبوط ارکان میں شمار ہوتی ہے اور اس کی خاص شان و منزلت ہے ۔
امام خمینی (رح) کے بقول: اسلام میں انسانی حقوق کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں ہی انسان ہیں اور عورت بھی مرد کی طرح اپنی سرنوشت میں مداخلت کرنے کا حق رکھتی ہے، ہاں، بعض موارد میں مرد اور عورت کے درمیان فرق بھی ہے جس کا تعلق ان کی انسانی حیثیت سے نہیں ہے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس نکتہ کی وضاحت ہوئی ہے کہ عورت اور مرد دونوں ہی خلقت کے لحاظ سے ایک گوہر سے خلق ہوئے ہیں اور روحانی ، جسمانی اور انسانی ماہیت اور حقیقت کے اعتبار سے یکساں اور ایک ہیں اور مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق اور امتیاز نہیں ہے۔
(یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة و خلق منھا زوجھا) اے لوگو! اپنے رب کی (مخالفت کرنے سے) بچو، وہی ذات جس نے تم کو ایک انسان سے خلق کیا اور اس کی شریک حیات کو (بھی) اسی کی جنس سے خلق کیا۔
ان آیت میں تصریح ہوتی ہے کہ مرد اور عورت دونوں ہی ایک جنس اور ایک حقیقت سے وجود میں آئے ہیں اور (نفس) سے مراد وہی انسان کی اصل ذات ہے۔
بنابریں مذکورہ آیت کا مطلب یہ ہے پہلی بات کہ سارے انسان خواہ مرد ہوں یا عورت (کلمہ ناس ان سب کو شامل ہے) ایک ذات اور ایک گوہر سے خلق ہوئے ہیں اور سب کی خلقت کو قبول کرنے کا سرچشمہ ایک چیز ہے۔
دوسرے یہ کہ سب سے پہلی عورت جو سب سے پہلے مرد کی بیوی ہے اسی عینی ذات اور گوہر سے خلق ہوئی ہے نہ کسی اور گوہر سے اور نہ ہی مرد کی فرع ہے یا اس کے علاوہ یا طفیلی بلکہ خداوند عالم نے پہلی عورت کو اسی ذات اور اصل سے خلق کیا ہے۔ تمام مردوں اور عورتوں کو اسی (گوہر) سے خلق کیا ہے۔ یہ بات روایات میں بھی مورد تائید ہے۔
اس بنیاد پر اسلام میں عورت کی کرامت کی بنیاد اس کا نسانی ذات اور خلقت کی جانب بازگشت کرنا ہے، چونکہ عورت انسان ہے۔ صاحب عقل، اختیار اور ارادہ ہے کمال اور سعادت تک پہونچنے کی اس کے لئے راہ ہموار ہے۔ اس لئے عورت ذاتی آزادی اور کرامت کی مالک ہے۔ اسلام میں عورت کی آزادی مغرب کی طرح صنعت اور ٹکنالوجی کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ ذاتی طور پر با کرامت اور آزاد ہے کیونکہ اسلام عورت کی جانب انسان ہونے کے لحاظ سے نظر کرتا ہے اور عورتوں کے لئے یہ آزادی اور حجاز اور تمام ممالک میں نہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے ہے جو ثقافتی اور معنوی انقلاب کے ساتھ ہے۔
اسلام عورت اور مرد کے حقوق کو "برابر" جانتا ہے نہ ظاہری و مشابہ۔ یعنی مرد اور عورت کی صلاحیتوں اور فطری ضرورتوں کے پیش نظر ہم اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ مختلف جہتوں سے ایک دوسرے سے فرق کرتے ہیں اور دست خلقت نے ان میں سے ہر ایک کو مختلف کام اور ذمہ داری کے لئے پیدا کیا ہے، بنابریں مرد اور عورت انسانی حقوق کے لحاظ سے اگر چہ مساوی اور برابر ہیں۔ لیکن ان کے اندر پائی جانے والی فطری استعداد اور فرق کی وجہ سے عدالت تقاضا کرتی ہے کہ خانوادگی زندگی میں مشابہ حقوق نہ رکھتے ہوں بلکہ ان میں سے ہر ایک خاص مقام اور منزلت، فرائض اور ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ فیمنسٹ کی غلط فہمی یہی ہے کہ وہ صرف ظاہری مشابہت کو دیکھتے اور ضرورتوں سے بے خبر ہو کر کلمہ "تساوی" کا غلط استعمال کرتے ہیں۔