عہدِ حاضر میں خمینی قوتِ اسلام تھا / کفر اس کے حرفِ حق سے لرزہ براندام تھا
آمریت کے لئے وہ موت کا پیغام تھا / بُت شکن، باطن شکن اور قاتلِ اصنام تھا
ایک ٹھوکر سے اُڑایا اُس نے شاہی تاج کو
چُٹکیوں میں روند ڈالا آمرانہ راج کو
بدشعاری اور فحاشی کا مٹا نام و نشاں / ہوگیا ایران کی توقیر کا پلہ گراں
ہر طرف اسلام کا نعرہ ہے اب وردِ زباں / دینِ حق کا، ہر بشر کے دل پہ ہے سکہ رواں
اُس مجاہد کی زباں میں کیا عجب تاثیر تھی
قول اس کا تھا کہ باطل کے لئے شمشیر تھی
مصحفِ ناطق کی تفسیر اُس کے سب افکار تھے / اُس کے اقوال اور افعال آہنی دیوار تھے
اُس کے گُرزِ آہنی سے بُت کدے مسمار تھے / کیوں نہ ہو، اُس کے محافظ حیدرِ کرّار تھے
ظلم و استبداد کو اس نے مٹایا مرحبا
اور نظامِ عدل کا سکہ بٹھایا مرحبا
موت کا صدمہ ہے ہر دل پر گراں واحسرتا / مرگِ عالِم، مرگِ عالمَ ہے، کہیں ہم اور کیا
وہ خمینی، جو جہاں میں مُہر ِ عالمتاب تھا / بالیقین تھا نائبِ برحق امامِ عصر کا
عالمِ اسلام اُس کے غم سے ہے خُونا بہ بار
جعفری وہ عہدِ حاضر کا تھا مرد ذی وقار