مومن امام جعفر صادق ع کی نظر میں
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، مومن فولاد سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے، کیونکہ جب لوہے کو آگ میں ڈالا جائے تو اس کی رنگت بدل جاتی ہے جبکہ مومن اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اگر اسے قتل کیا جائے، پھر اٹھایا جائے اور پھر قتل کیا جائے تو بھی اس کا دل متغیر نہیں ہوتا۔ مومن اللہ کا اطاعت گزار اور اس کے پیغمبر ص کا تصدیق کنندہ ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں خداوند عالم نے بہت زیادہ مقامات پر مومنین سے یایھاالذین آمنوا یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو کہہ کر خطاب کیا ہے، ایمان والوں سے مراد یہ کہ خدا مومنین کو مخاطب کر رہا ہے۔ کیا خدا جن سے خطاب کر رہا ہے وہ سب مومن کے درجے پر فائز ہو گئے ہیں یا اس مقام تک پہنچنے کے لئے ان کو خود بھی کچھ کرنا ہے۔ دراصل مومن کون ہیں اور ان میں کیا خصوصیات ہونی چاہییں، کیا انسان صرف مسلمان ہونے کی بنا پر مومن ہے یا مومن بننے اور کہلوانے کے کچھ اور بھی لوازمات ہیں۔ جب ہم سیرہ نبوی صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہ السلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی علوم کی اتنی پیشرفت کے باوجود ہم اصل تعلیمات سے کتنے دور ہیں۔ معصومین ع کے نزدیک مومن کے عادات و خصائل اور علامات کیا ہونی چاہییں، اس تحریر میں اسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے، تاکہ ہم اپنا محاسبہ کر سکیں اور جان سکیں کہ ہم مومن ہیں یا ابھی مزید جدوجہد کی ضرورت ہے، کیونکہ انسان کبھی اس سے مبرا نہیں کہ اپنے آپ کو کامل سمجھتے ہوئے کمال تک پہنچنے کی کوشش ترک کر دے، بلکہ آئمہ طاہرین ع کے خط کی پیروی کرتے ہوئے اعلٰی ترین درجے پر فائز ہو سکتا ہے۔
انسان کو خطا کا پتلا کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کیونکہ انسان جلد شیطان کے بہکاوے میں آ جاتا ہے، شیطان سے بچنے کے لئے پہلا راستہ جو خدا نے بتایا، اور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہ السلام نے اسکی شدت سے تاکید و تائید کی وہ نماز پنجگانہ اول وقت ہیں، قرآن میں ارشاد باری تعالٰی ہے"اِنّ الصلاۃ تنھٰی علی الفحشاء والمنکر" کہ بےشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ امام جعفر صادق ع کا فرمان ہے" جس کسی نے نماز کو سبک شمار کیا وہ ہم میں سے نہیں" تو مومن کی پہلی خصوصیت قرآن و سنت کی روشنی میں یہ ہوئی کہ وہ نماز گزار ہوتا ہے اور نماز کو کسی حال میں رہا نہیں کرتا۔
مومن کی دیگر نشانیاں:
امام صادق ع سے مومن کی علامات کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، مومن کی چار علامتیں ہیں، اول یہ کہ اس کی نیند اس شخص کی نیند جیسی ہوتی ہے جو ڈوب رہا ہو، دوم یہ کہ اس کی غذا کسی بیمار کی طرح سے ہوتی ہے، مومن کی تیسری علامت یہ ہے کہ وہ خدا کے حضور اس طرح گریہ کرتا ہے جیسے ماں مردہ بیٹے کی لاش پر گریہ کرتی ہے، چہارم یہ کہ اس کا بیٹھنا کسی ہراساں فرد کی طرح سے ہوتا ہے۔ جب آپ سے یہ پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ مومن بعض اوقات انتہائی بخیل ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ حلال ذریعے سے رزق حاصل کرتا ہے اور حلال روزی کمانا بہت دشوار ہوتی ہے اس لیے وہ جس رزق کو بڑی مشکل سے حاصل کرتا ہے وہ اس سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا۔ اور اگر کبھی وہ سخاوت کرتا ہے تو اسے جائز مقام پر ہی خرچ کرتا ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ مومن نکاح کا دوسروں کی نسبت زیادہ حریص ہوتا ہے؟ آپ نے جواب دیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن خود کو حرام سے محفوظ رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جنسی خواہش اسے کہیں ادھر ادھر نہ لے جائے اور جب وہ حلال حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اسی پر اکتفا کرتا ہے اور حرام سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
مومن کے لیے چھ چیزوں کا اقرار ضروری ہے:
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مومن کے لیے چھ چیزوں کا اقرار ضروری ہے، اول یہ کہ ستمگروں اور طاغوتوں سے برأت کرے، دوم یہ کہ اہل بیت ع کی ولایت کا اقرار کرے، سوم یہ کہ رجعت پر ایمان لائے، اور چہارم یہ کہ متعہ کو حلال سمجھے، پنجم یہ کہ موزوں پر مسح کرنے سے پرہیز کرے، اور ششم یہ کہ ملی مچھلی اور سانپ مچھلی کو حرام جانے۔ صالح بن ہیثم کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، جس میں تین صفات موجود ہوں تو اس نے ایمان کی صفات کی تکمیل کر لی، جو کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم پر صبر کرے اور اپنا غصہ پی جائے اور اپنے دونوں اعمال کا بدلہ خدا سے طلب کرے تو وہ ان لوگوں میں شامل ہو گا جنہیں خدا جنت میں داخل کرے گا اور انہیں قبیلہ ربیعہ و حضر کے افراد کے برابر حقِ شفاعت عطا فرمائے گا۔ زید سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، تم اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک لوگوں کی نظر میں قابلِ اعتماد حیثیت کا درجہ اختیار نہیں کر لیتے اور تم اس وقت مومن ہو گے جب تم فراخی اور فراوانی کو اپنے لیے مصیبت سمجھو گے، کیونکہ آزمائش پر صبر کرنا وسعت و فراخی کی عافیت سے کہیں بہتر ہے۔