حضرت خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے بھترین رفیقہ
تاریخ عالم کا رخ بدلنے میں جن خواتین نے اہم کردارسرانجام دیا ہے ان میں سرفہرست اور سنہری حروف سے لکھا گیا مقدس اسم گرامی ام الزہراء ،سیدہ خدیجۃالکبریٰ کا ہے۔ ام المومنین،سیدہ خدیجۃالکبریٰ عرب کی معزز ترین اور دولت مند خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ علم و فضل اور ایمان و ایقان میں بھی نمایاں مقام رکھتی ہیں۔پیغمبر اسلام صلی ا للہ آپ کی رفاقت اور غمگساری کو آخری سانس تک نہ بھول پائے اور فرمایا کہ خدیجہ جیسی رفیقہ مجھے کوئی اور نہ ملی۔
افتخار عرب کے ہمالیہ کی دو بلند ترین چوٹیاں تھیں،ایک سید البطحا سیدنا ابو طالب اور دوسری ملیکۃالعرب سیدہ خدیجۃالکبریٰ ہیں جو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں اور دوران جاھلیت میں آپ کو (الطاہرہ اور سیدہ قریش) کے القاب سے یاد کیا جاتا تھا ۔ عزت و احترام کے علاوہ سیدہ خدیجہ دولت و ثروت میں بھی اپنا نظیر نہ رکھتی تھیں۔ذرائع آمد و رفت اور وسائل نقل و حمل کے حد درجہ محدود اور غیر ترقی یافتہ ہونے کے باوجود نہ صرف عربی حدود بلکہ عرب سے باہر دیگر ممالک تک آپ کا سلسلۂ تجارت وسیع تھا۔دنیا قومیت میں محدود تھی اور آپ کی تجارت بین الاقوامی تھی۔
سیدہ خدیجہ ،عزت و احترا م ،دولت و ثروت اور علم و عرفان میں بلند منزلت اور بین الاقوامی تجارت میں تن تنہا مالک تھیں۔آپ تاریخ اسلام میں نمایاں اور مرکزی مقام رکھتی ہیں۔شرفِ زوجیت رسول اعظم سے پہلے بھی آپ تاریخ ساز شخصیت تھیں اور پورے عرب میں آپ کا کوئی مثل نہ تھا۔عرب،جہاں عورت کو پیدا ہوتے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا وہاں ایسی عورت کا وجود جس نے تجارت میں مردوں کو گرد کارواں بنا دیا اور گھر میں بیٹھ کر تجارت کرنا اور اتنے بڑے تجارتی نظام کو ترقی دینا اور عورت ہو کر مختلف دیار و امصار میں پھیلی ہوئی دولت و تجارت کی دیکھ بھال کرنا اور پھر عورت کی تضحیک کرنے والے معاشرے کے کے تمام سربراہوں اور بادشاہوں کے غرور کو مٹی میں ملا دینا ایک تاریخ ساز اقدام تھا ۔
دور جاہلیت میں بھی آپ مکارم اخلاق،صفات حمیدہ اور اعلیٰ انسانی اقدار کی مالک تھیں اور ان ایام میں بھی آپ کو طاہرہ اور سیدۂ قریش کہا جاتا تھا۔آپ کی فکر و نظر طاہر، عقل و شعور طاہر، تہذیب و تمدن طاہر، خیالات و تصورات طاہراور آپ ابتدا سے انتہا تک طاہرہ تھیں اور ہر اعتبار سے سیدۂ قریش تھیں۔
سیدناطہٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایسی ہی رفیقۂ حیات شایان شان تھیں جو خود ہر اعتبار سے طاہرہ ہوں۔ مزاج کی یک رنگی، خیالات کی یکجہتی،فکر و نظر اور قول و فعل کی ہم آہنگی سیدہ طاہرہ اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال ازدواجی زندگی کا سنہرا باب ہے شیعوں کے عقائد کے مطابق ملکۃ العرب سیدۃ خدیجۃ الکبری پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت عزیز تھیں ۔
آپ کے تاریخی اقدامات میں ،یتیم عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقد اور مرسل اعظم کی زوجیت میں آنے کے بعد اسلامی تاریخ کا آپ کے گرد طواف کرنا ،حضور پر سب سے پہلے ایمان لانا،سب سے پہلے نبوت کے ساتھ نماز ادا کرنا،پچیس برس مسلسل آواز وحی کو سننا،خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طیب و طاہر نسل مبارک کی امین، الکوثرفاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا کو گود میں لے کر تین سال تک شعب ابی طالب کی قید اور ساری جمع پونجی اسلام کی بنیادوں پر خرچ کردینے والی تاریخ ساز خاتون،سیدہ خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیھا ہیں۔
سیدہ خدیجہ الکبریٰ کی سیرت مبارکہ پر آدمیت کو ناز ہے کہ آپ نے انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی نگہداشت فرمائی ۔ اسلام کو ناز ہے کہ انہوں نے اس وقت اسے قبول فرمایا جب کوئی اسے جاننے اور ماننے کو تیار نہ تھا۔دنیا کی ہر شریف بیٹی،اطاعت گزار بیوی اور مقدس ماں کو ناز ہے کہ انہوں نے ہر دور میں عورت کی شرم و حیا،غیرت و خودداری اور پیار و محبت کے جوہر کا تحفظ کیا۔ہر دور کی بچیوں کو ناز ہے کہ ان کی گود میں وہ بچی پلی جو وقار نسواں کا عنوان بنی۔رشد و ہدایت کو ناز ہے کہ گیارہ خلفاء راشدین کی ماں ہیں۔قرآن کو ناز ہے کہ آپ کے بطن اطہر سے مفسر ملے۔کعبہ کو ناز ہے کہ تقدس کے محافظ ملے، آغوش نبوت کو ناز ہے کہ زینت ملی۔سیدنا ابو طالب کو ناز ہے کہ آپ نے پوری حیات طیبہ کو اللہ کی رضا کا آئینہ دار بنا دیا۔
آپ روزانہ ہزاروں درہم غرباء و مساکین میں تقسیم فرماتی تھیں۔آپ کے بعد سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، تواتر سے غرباء و مساکین کی امداد کرتے اور فرمایا کرتے،’’خدیجہ نے مجھے ان لوگوں سے حسن سلوک کرتے رہنے کی وصیت کی تھی‘‘۔
علمی مذاکرے:
عزت و دولت کی مالک خدیجہ علم و عرفان کی زندگی بسر فرما رہی تھیں۔ دنیا جہالت و جاہلیت کے اندھیروں میں تھی اور کتب سماوی اور علوم لدنی کے درمیان سیدہ خدیجہ کی شمع حیات روشن تھی۔آپ علمی مباحثہ فرمایا کرتی تھیں اور جید علما ء کتب آسمانی اور احبار یہود سے آپ کے علمی مباحث جاری رہتے تھے۔آپ کے خاندان کو صرف سیادت و سروری ہی کا فخر حاصل نہیں تھا بلکہ اس خاندان میں زمانۂ قدیم سے علم بھی خیمہ زن تھا۔ورقہ بن نوفل کی شخصیت ،غیر معروف نہیں ہے ۔آپ،سیدہ خدیجہ طاہرہ کے چچا ذاد بھائی تھے اور کتب سماوی کے جید عالم تھے۔ ان کے ساتھ علمی مذاکرے،آسمانی کتابوں کے تذکرے اور صحف انبیاء کے چرچے ہوتے رہتے تھے۔آپ کی تلاش و جستجو، حقیقت کی دریافت کا شوق اور مسلسل تگ ودو اور غور و فکر کی نورانی تڑپ صفحات تاریخ میں بکھری نظر آتی ہے۔
وفات:
مصادر و ذرائع میں منقول ہے کہ سیدہ خدیجہ (س)، سنہ 10 بعد از بعثت (یعنی 3 سال قبل از ہجرت مدینہ) ہے۔ زیادہ تر کتب میں ہے کہ وفات کے وقت آپ کی عمر 65 برس تھی۔ابن عبدالبر، کا کہنا ہے کہ خدیجہ (س) کی عمر بوقت وفات 64 سال چھ ماہ، تھی۔ بعض مصادر میں ہے کہ حضرت خدیجہ(س) کا سال وفات ابو طالب (ع) کا سال وفات ہی ہے۔ ابن سعد کا کہنا ہے کہ حضرت خدیجہ (س) ابو طالب (ع) کی رحلت کے 35 دن بعد رحلت کر گئی ہیں۔[55] وہ اور بعض دوسرے مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ کی وفات کی صحیح تاریخ رمضان سنہ 10 بعد از بعثت ہے۔ اور رسول اللہ (ص) نے آپ کو اپنی ردا اور پھر جنتی ردا میں کفن دیا اور مکہ کے بالائی حصے میں واقع پہاڑی (کوہ حجون) کے دامن میں، مقبرہ معلی' (یا جنت المعلی') میں سپرد خاک کیا۔