28/ رجب سرکار سید الشہداء؛ امام حسین (ع) کی مدینہ سے مکہ روانگی کا دن ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس دن نبی کا نواسہ، زہرا (س) اور علی (ع) کا لخت جگر، کائنات کا عظیم انسان اپنا وطن کیوں چھوڑرہا ہے۔ امام حسین (ع) نی مدینہ کو اس لئے ترک کیا کہ اب مدینہ آپ کے لئے محفوظ مقام نہیں رہ گیا تھا۔ امام نے خود اپنے خروج اور قیام کی خود ہی علت بیان فرماتے ہیں:
میں نے اپنے جد رسول خدا (ص) کی امت کی اصلاح اور بابا علی مرتضی (ع) کی سیرت پر چلنے کے لئے قیام کیا ہی میں انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں۔
جب امام (ع) نے مدینہ چھوڑنے کا عزم کرلیا تو آپ رات کے وقت اپنی والدہ گرامی حضرت فاطمہ زہرا (س) اور بھائی حسن مجتبی (ع) کی قبر پر گئے۔ اور وہاں نماز پڑھی اور خداحافظ کہا اور صبح کو گھر واپس آگئے۔ دوسرے مآخذ میں ہے کہ حضرت امام حسین (ع) پے در پے دو رات رسول خدا (ص) کی قبر اطہر پر گذاری۔
امام حسین (ع) 28/ رجب کو اپنے اہلبیت اور اصحاب و انصار کی 82/ افراد پر مشتمل جماعت کے ساتھ مدینہ سے نکلے اس سفر میں آپ کے خاندان کے افراد میں محمد حنفیہ کے علاوہ آپ کے ساری بھائی، ساری اولاد، ساری بہنیں اور بھتیجے اور بھانجے ساتھ تھے۔ بنی ہاشم کے علاوہ 21/ اصحاب بھی آپ کے ہمراہ ہوئے تھے اور آپ (ع) اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ کے اصلی جادہ سے نکلے۔ راستہ میں امام اور آپ کے ساتھیوں کی عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی۔ امام (ع) پانچ دن بعد 3/ شعبان سن 60 ھج ق کو مکہ پہونچ گئے۔ مکہ والوں اور بیت اللہ الحرام کے حاجیوں نے آپ کا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا اور بہت خوش ہوئے۔ لوگ صبح و شام آپ کے پاس آنے لگے۔ یہ بات عبداللہ بن زبیر کو گراں گذری کیونکہ اسے یہ امید تھی کہ لوگ اس کی بیعت کریں گے اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ جب تک امام حسین (ع) مکہ میں ہیں اس کی کوئی بیعت نہیں کرے گا کیونکہ مکہ والوں کے نزدیک امام حسین (ع) کا مقام و مرتبہ بن زبیر کی نسبت بلند و بالا ہے۔
مکہ کا سفر
اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ آزادی اور مکمل امن و امان کے ساتھ اپنے نظریات کا اظہار کرسکیں۔ دوسرے یہ کہ اس جگہ کو تمام اسلامی حکومت میں اپنے نظریات اور خیالات کو منتقل کرنے کا مرکز قرار دیں۔ چونکہ مکہ میں دونوں خصوصیت موجود تھیں۔ آیت کی روشنی میں "من دخلہ کان آمنا" حرم امن الہی ہے اور اس شہر میں کعبہ کا ہونا اور پوری اسلامی حکومتوں سے حج اور عمرہ کے لئے اس شہر میں مسلمانوں کا آنا، امام حسین (ع) بخوبی مختلف گروہوں سے ملاقات کرسکے اور اموی دستگاہ اور یزید پلید کی کھلم کھلا اپنی مخالفت کی علت ان کے سامنے بیان کی اور اسلامی معارف کے گوشہ بیان کرسکیں۔ اور کوفہ، بصرہ جیسے شہروں سے رابطہ میں رہیں۔ امام حسین (ع) مکہ میں چند ماہ رہے اور راتوں کو خانہ میں نماز جماعت کے فرائض انجام دیتے اور منبر پر جاکر انقلاب اور ہلا دینے والی تقریر کرتے تھے۔ لوگ بھی بالخصوص جو ان آپ کے اطراف میں آگئے تھے۔ کبھی مکہ میں اور کبھی کربلا کے راستہ میں فرماتے تھے:
"الا ترون ان الحق لا یعمل بہ و ان الباطل لا یتناہی عنہ ..." اے جوانوں کیا تم لوگ نہیں دیکھ رہےہو کہ حق پامال ہورہا ہے اور باطل پرستی رواج پارہی ہے؟ کیا تم لوگ نہیں دیکھ رہے ہو کہ یزید جیسا انسان برسر اقتدار آگیا ہے؟ موت مومن کے لئے شربت ہی اور ہم سب کو اسلام عزیز کے لئے جان نثار کردینا چاہیئے۔ کبھی لوگوں سے کہتے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیئے۔میں مدینہ سے مکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے آیا اسلام کا دفاع کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اسلام ہم سے کہتا ہی کہ تم خود کو دین پر قربان کردو۔ اے لوگو! میں پیغمبر (ص) اور علی (ع) کی محو شدہ سیرت کو زندہ کرنے کے نکلا ہوں۔
امام حسین (ع) اپنی انقلابی اور جھنجھوڑ دینے والی تقریر میں آہستہ آہستہ قیام کے لئے آمادہ ہوچکے تھے۔ بنی امیہ بھی بیکار نہیں بیٹھے ، بلکہ انہوں نے یہ سازی کی تھی کہ اعمال حج کے دوران انہیں شہید کردیا جائے۔ جب امام حسین (ع) نے دیکھا کہ اس شہادت کا اسلام کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ بلکہ اسلامی کی آبیاری کرنے والی ایک دوسری شہادت ہے، لہذا آپ نے شب عرفہ نماز جماعت پڑھنے کے بعد منبر پر جاکر فرمایا:
میں چلا اور جو بھی راہ اسلام میں شہید ہونا چاہتا ہے وہ آئے۔
دشمنوں کے ناپاک ارادہ اور منحوس منصوبہ نے امام کو عرفہ کے دن مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا۔