اے خمینی؛ اے امام؛ چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری؛ ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری
گزشتہ صدی کے آئینہ میں براعظم ایشیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ اس تمام عرصہ میں انقلابی فکر اور قیادت نے خصوصاً مسلمانوں کو ایک نئی کیفیت سے آگاہ کیا۔ برصغیر اور خلافت عثمانیہ کے واقعات نے گزشتہ صدی کے اوائل سے ہی دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ، ایک اور اہم اسلامی ملک کی حکومت ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والوں کےلئے راہ ہموار کر رہی تھی؛ کسے خبر تھی کہ بیسویں صدی میں ایک ایسا شخص پیدا ہوگا جو عوام کی فکر میں ایک نئی روح پھونکےگا اور "مرد انقلاب" کہلائےگا۔
آیت اللہ سید روح اللہ خمینیؒ وہ تاریخ ساز نام ہے جس نے انقلاب کی جنگ استقامت کے ساتھ لڑی۔ یہ حقیقت ہےکہ جب فریقین میں فکر کا تضاد ہو تو کربلا جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں کوئی یزید بن جاتا ہے تو کوئی حسینؑ! ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ صدی کے دوران ایران میں رونما ہوا جس نے انقلاب اسلامی کی راہ ہموار کی۔
مغربی حکومتوں نے نو آبادیاتی نظام کے ذریعے عالم اسلام کے وسیع علاقوں پر جبری قبضہ کیا اور وہاں تشدد، مال و طاقت کی بدولت استعماری طاقتوں کی خفیہ اور برملا مداخلت کا سلسلہ شروع کر دیا۔
ایران میں بھی کئی سلاطین برسر اقتدار آئے اور عوام پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے مگر ایران کے دیندار عوام نے اس نو آبادیاتی نظام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس طریقہ کار کی ناکامی پر دشمن کے سرغنہ یعنی امریکہ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی اور یہاں کے وسائل حضوصا تیل کی دولت پر قبضہ کرنے کی ٹھانی اور ایران کی شاہی حکومت کے ذریعے مغربی طرز حکومت کی بنیاد رکھنے کا منصوبہ بنایا۔
چونکہ ایرانی عوام ایک طویل عرصہ سے ظلم و استبداد کا مقابلہ کرتے آرہے تھے لہٰذا انہوں نے سلسلہ شاہی سے بغاوت کا اعلان ایک با قاعدہ تحریک کے ذریعے کیا۔
سن ۱۸۹۱ء کے دوران "تحریک تمباکو" میں عظیم مجاہد اور عالم آیت اللہ العظمی مرزا حسن شیرازی کے فتوے، سید جمال الدین اسد آبادی (افغانی) کے اصلاحی پیغام اور مغربی سامراج کےخلاف ایران و عراق کی تحریک سے یہ بات آشکار ہو چکی تھی کہ ایرانی عوام کے دلوں اور ذہنوں پر علمی قیادت مکمل طور پر قابض ہے لہٰذا امریکہ نے دین کو سیاست سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے مقصد کے حصول کی خاطر پہلوی خاندان کا سہارا لیا۔
امریکی معاون برطانیہ نے رضاخان کے بیٹے محمد رضا کو سن ۱۹۴۱ء میں ایران کا بادشاہ بنا دیا۔ ایرانی عوام باشعور علماء کی قیادت میں اپنی منزل (اسلامی حکومت کے قیام) کیطرف رواں دواں تھی۔ ان صف اول کے رہنمائوں میں سے ایک شخصیت نے خود کو سب سے الگ اور جُدا ثابت کردیا۔ اُس میں کیا تھا اور کیا نہیں؟ ایک عام آدمی شاید درک نہ کرسکے مگر شاعر کے قلم کو کون روک سکتا ہے؟
چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی
ہے نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
سید روح اللہ موسوی خمینیؒ جیسے مرد مومن نے اپنے ہاتھوں سے نور توحید کی شمع باقی رہنے کا سامان پیدا کیا تو باطل کی تاریکی خود بخود روشنی میں تبدیل ہو گئی۔ بھلا اس حقیقت کو کون جُھٹلا سکتا ہےکہ ہر اندھیری رات ایک روشن دن پر ختم ہوتی ہے۔
یکم فروری ۱۹۷۹ء کی صبح ۱۴ سال وطن سے دُور رہنے کے بعد امام خمینیؒ ایران واپس تشریف لائے۔ ایرانی عوام نے اپنے قائد کے استقبال کےلئے دیدہ و دل بچھا دیئے۔ آپؒ نے وطن واپس آتے ہی قوم کی حمایت سے حکومت بنانے کا اعلان کیا؛ بختیار کی دم توڑتی ہوئی حکومت نے آخری کوشش کے طور پر فوجی بغاوت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا نے کا حکم دیا۔ کرفیو نافذ ہونے کے باوجود امامؒ نے اس سازش کو ناکام بنانے کےلئے عوام کو گھروں سے نکل جانے کا حکم دیا۔ تہرانی عوام لبیک کہتی ہوئی سٹرکوں پر نکل آئی اور شاہی حکومت کی آخری کوشش بھی ناکام ہو کر رہ گئی۔
۱۱ فروری ۱۹۷۹ء کی صبح کو ایران میں امام خمینیؒ کی تحریک اور اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوا اور ظالم بادشاہوں کا طویل سلسلہ بادشاہت بھی ختم ہوگیا۔
انقلاب اسلامی ایران کی اصل رُوح امام خمینیؒ کے دینی افکار و اذکار اور اُن کا پرچار ہے۔ انقلاب کی کامیابی سے مراد اسلامی روحانی اقدار کے فروغ کے علاوہ تیسری دنیا کے ممالک میں آزادی کی تحریکوں کی لہر کو متحرک کرنا ہے۔
آیت اللہ روح اللہ خمینیؒ نے بر سر اقتدار آنے کے بعد تحریر و تقریر کے ذریعے اُمت مسلمہ کی فلاح، یگانگت اور مغربی ثقافت کی یلغار سے بچائو کےلئے وعظ و نصیحت کا سلسلہ بر قرار رکھا۔ آپ مسلمانوں کے مسائل میں گہری دلچسپی لیتے تھے۔ قدس کی آزادی کےلئے آپ ؒ کی تقاریر نے دنیائے اسلام کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا؛ آپ ؒ نے فرمایا تھا:
" امریکہ ۔ برطانیہ سے بدتر ؛ برطانیہ ۔ امریکہ سے بدتر اور سوویت یونین ان دونوں سے بدتر ہے؛ آج ہمارا واسطہ ان خبیثوں سے ہے۔ امریکہ سے ہے، امریکی صدر کو جان لینا چاہئےکہ ہماری قوم کے نزدیک وہ دنیا کا سب سے زیادہ قابل نفرت شخص ہے۔ ہماری ساری مصیبتیں اسی امریکہ کی وجہ سے ہیں، ہماری مصیبت اس اسرائیل کی وجہ سے ہے، اسرائیل بھی امریکہ کا حصہ ہے"۔
انتالیس سال گزر جانے کے بعد بھی یہ الفاظ، آج بھی دنیا کی سیاسی صورتحال کی صحیح عکاسی کر رہے ہیں۔
امام خمینیؒ کا سب سے اہم اور جراتمندانہ قدم اپنے دور کی بڑی طاقت روس کو اسلام کا پیغام دینا تھا؛ یہ واقعہ بھی اُس واقعہ سے مماثلت رکھتا ہےکہ جب نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ نے روم اور ایران کے بادشاہوں کو دعوتِ اسلام دی تھی؛ امام ؒ نے روس کے صدر گورباچوف کو آگاہ کیا تھا کہ اُن کے ملک کا حقیقی مسئلہ نجی ملکیت و اقتصادیات کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ خدا پر ایمان نہ لانا تھا۔ اس حقیقت کا اعتراف خود روسی صدر نے امام ؒ کی رحلت کے بعد کیا تھا؛ بقول گورباچوف:
"امام خمینیؒ کا پیغام میرے ذہن پر نقش ہےکہ انہوں نے کہا تھا کہ میں عنقریب مارکسزم کو تاریخ کے عجائب گھر میں دیکھ رہا ہوں۔ اگر ہم اُن کی دور اندیشی کو سنجیدگی سے سنتے تو آج ہم اس حال کو نہ پہنچتے اور ملک کی یہ حالت نہ ہوتی؛ اگرچہ روس کی موجودہ حالت داخلی اسباب کی بنا پر ہے"۔
المختصر، امام خمینیؒ کا کردار، ہر مسلمان کےلئے نمونۂ عمل ہے اور عالم اسلام کے ہر نوجوان کےلئے ایک پیغام ہے۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے / دہر میں اسم محمد ؐ سے اُجالا کر دے