پروفیسر: مسلمان عوام اسلام کیطرف متوجہ ہوئے اور انہیں یہ یقین ہوگیا کہ ان کی نجات کا واحد راستہ اسلام ہی ہے۔
برسوں سے مسلمان اپنی حقیقی شناخت سے ناواقف و بیگانہ تھے اور امریکہ کی قیادت میں عالمی سامراج، عظیم اسلامی قدروں کےخلاف اپنی تبلیغاتی جنگ کے دوران یہ کوشش کررہا تھا کہ عالمی اسلامی معاشرہ اپنے مذہبی اہداف و معارف سے بیگانہ ہوکر دشمنان اسلام کی سامراجی ثقافت کے سامنے سرتسلیم ختم کردے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل یہ سازش بڑی تیز رفتاری سے ترقی کی منزلیں طے کررہی تھی لیکن اچانک سرزمین ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب نے عصر حاضر میں عظیم تبدیلیاں پیدا کردیں اور دشمنان اسلام کا خواب ادھورہ ہی رہ گیا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد ہشام سلطان بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی اسلامی تحریکوں پر اسلامی انقلاب کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ آج اسلامی ممالک کے عوام اسلام کیطرف زیادہ سے زیادہ مائل ہو رہے ہیں؛ جب سے سامراجی طاقتوں نے اسلامی ممالک پر اپنا فوج، سیاسی، اقتصادی اور تبلیغاتی حملہ شروع کیا اور مسلمانوں کی اعلانیہ بےحرمتی کا بازار گرم کیا، تب سے آج تک مسلمانوں کی بےشمار تحریکوں نے اس ہلاکت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یکے بعد دیگرے یہ تحریکیں شکست و ناکامی سے دوچار ہوتی رہیں اور آزادی طلب تحریکیں ان مسلمانوں کے استقلال و اعتماد نفس کو بحال کرنے میں پوری طرح ناکام ہوچکی تھیں؛ ایسے میں مسلمان عوام اسلام کیطرف متوجہ ہوئے اور انہیں یہ یقین ہوگیا کہ ان کی نجات کا واحد راستہ اسلام ہی ہے؛ لہذا، انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد اسلامی تحریکوں میں مسلمانوں کو غیر معمولی دلچسپی ہوئی۔
البتہ انسان گوناگوں احتیاجات کا حامل ہے اور اسلام میں ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے اور جب اسلام اتنی اہمیت رکھتا ہے تو امت اسلامیہ کو چاہئےکہ وہ اپنی ضروریات کو اسلامی علوم کی روشنی میں پورا کرے اور اس مقصد میں کامیابی کےلئے بڑی بڑی یونیورسٹیوں کی تشکیل ہونی چاہئے اور انہیں ایسے اساتذہ کو مقرر کرنا چاہئے جو علوم حاضرہ پر مکمل مہارت کے ساتھ، عقیدتی اور عرفانی شعبوں میں بخوبی ماہر و واقف ہوں۔
ڈاکٹر سلطان نے امام خمینی علیہ الرحمہ کے افکار و ارشادات کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
امام خمینی کی راہ ایک سچی راہ ہے اور اس کی ایک واضح دلیل یہ ہےکہ مغرب، امام خمینی اور انکے افکار کا مخالف ہے اور یہ مخالفت ہی ان کی صداقت پر اہم دلیل ہے۔
آج مغربی ممالک اس بات سے بےحد خوفزدہ ہیں کہ امام خمینی(رح) کے خیالات ساری دنیا میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ آج مغربی ممالک کی سب سے بڑی کوشش یہ ہےکہ وہ اسلامی حقائق کو مشکوک اور ناقابل عمل بنا کر پیش کریں؛ لہذا، مسلمانوں کا اہم ترین واجب کام یہ ہےکہ وہ دنیا کے ہر گوشے میں حقیقی اسلام کو پہچانیں اور اس کی بھرپور حفاظت بھی کریں۔
ڈاکٹر سلطان جو کہ دراصل فلسطینی ہیں، مقبوضہ فلسطین اور اسلامی تحریک و سرگرمیوں کےحوالے سے کہتا ہےکہ اگر دنیا والے، اسرائیل کی طرفدار نہ ہوتی تو اسرائیل مسلمانوں سے ہرگز جنگ نہیں کرسکتا تھا۔ آج اگر دنیا کے تمام عرب اور اسلامی ممالک باہم متحد ہوجائیں تو اسرائیل کی نابودی یقینی ہے؛ لہذا، ہم لوگوں کو قرآن مجید کی آیہ کریمہ: " وَأَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَمِن رِباطِ الخَيلِ تُرهِبونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُم " کی روشنی میں خود کو مسلح اور طاقتور بنانا چاہئے۔
پروفیسر نے آخر میں اشتراکیت کے زوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
کمیونزم کی شکست ایک فطری امر ہے کیونکہ کمیونزم انسان کو ایک مشینی وسیلہ میں تبدیل کرنا چاہتا ہے جبکہ انسان کی فطرت کچھ اور ہے اور خداوند عالم نے اسے آزاد خلق کیا ہے اور کمیونزم انسان سے اس کے اختیارات کو سلب کرلیتا ہے بالخصوص فکری اعتبار سے اس کے پاس کوئی اختیار نہیں رہ جاتا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ رومانیہ کے عوام عیسائیت کیطرف مائل ہوچکے ہیں جبکہ مسیحیت انسان کو ایک کامل مخلوق کا درجہ نہیں دیتی ہے۔
یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہےکہ انسان فطرتاً دین و مذہب کا محتاج ہے اور اگر خود کمیونسٹ و سوشلسٹ اور سرمایہ دار طبقے کے لوگ اسلام کا بغور مطالعہ کریں تو انہیں اس حقیقت کا اندازہ ہوجائےگا کہ خود ان کی نجات کا راستہ اسلام ہے؛ لیکن مغرب یہ کوشش کررہا ہےکہ امریکہ کی سرپرستی میں کام کرنے والی تحریکوں اور تنظمیوں کو خالص اسلامی تحریک کی حیثیت سے عالم اسلام کے سامنے پیش کردے اور دوسری طرف اسرائیل کو پوری طرح مسلح کرکے انہیں اسلام کے مقابلے کےلئے آمادہ کررہا ہے۔ البتہ اسرائیل میں یہودی عوام حکومت کی اسلام دشمن سیاست سے عذاب میں مبتلا ہیں جبکہ اسلامی حکومت میں یہودیوں کو اپنے حقوق و مطالبات تک پہنچنے میں بڑی سہولت ہے۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے میرا نظریہ یہ ہےکہ اسلام یہودیوں اور عیسائیوں کےلئے بھی ایک رحمت ہے؛ یہ تو انہوں نے خود ہی معرکہ آرائی کا بازار گرم کررکھا ہے اور آخرکار انہیں نقصان کا منہ دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں آپسی ٹکراو کے دوران مناسب جواب بہرحال دیں گے اور دشمن کی نابودی کےلئے بھرپور کوشش کریں گے۔