روایات کے مطابق، گناہ، ہمارے دل کے انحراف کا باعث بنتا ہے اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، اس دل سے دور ہوجاتے ہیں۔
حجت الاسلام حسن محمودی نے امام معصوم کی معرفت کی ضرورت کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
امام حسین علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کس مقصد کےلئے خلق فرمایا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ ہم اس کی معرفت حاصل کریں اور عبودیت کے مقام پر فائز ہوجائیں۔
امام علیہ السلام سے دوبارہ سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا معیار کیا ہے؟
فرمایا: اللہ تعالیٰ کی معرفت کا معیار، ہر زمانے کے امام کی معرفت ہے؛ یعنی امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت، اللہ تعالیٰ کی معرفت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
روایت میں ہےکہ اگر ہم امام زمانہ کی معرفت حاصل نہ کریں تو ہم جہالت کی موت مرگئے ہیں یعنی ہماری زندگی اور حقیقت، امام کی معرفت کے مرہون منت ہے اور صرف ایسے افراد نے زندگی سے لذت حاصل کی ہےکہ جو اپنے امام کی معرفت رکھتے ہیں؛ وگرنہ وہ پریشانی کی وادی میں سرگرداں ہیں اور ان کا کوئی مشخص ہدف نہیں ہے۔
دراصل، آنکھ کی بجائے دل کے ذریعے امام کی معرفت حاصل کی جاتی ہے۔ جو افراد آنکھ کی نعمت سے محروم ہیں انہیں نابینا تو کہا جاتا ہے لیکن ان کے دل روشن ہیں اور وہ بہتر امام علیہ السلام کو پہچان سکتے ہیں کیونکہ ہماری ظاہری آنکھیں اس دنیا کی بہت سی چیزوں کو دیکھ دیکھ کر اپنے امام سے غافل ہوجاتی ہیں۔
محمودی صاحب کا کہنا تھا کہ آیت اللہ بہجت سے سوال کیا گیا کہ امام زمانہ علیہ السلام کہاں ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: امام مہدی علیہ السلام تمہارے دلوں میں ہیں اور خبردار انہیں وہاں سے بھاگنے نہ دینا۔ گناہ ہمارے دلوں سے امام زمانہ علیہ السلام کے فرار ہونے کا باعث بنتا ہے اور یہ گناہ ہمارے دل کی آنکھ کو بند کردیتا ہے۔
روایات کی بنا پر گناہ ہمارے دل کے منحرف اور مریض ہونے کا باعث بنتا ہے۔ پس جو چیز ہمارے دل کی آنکھ کے کھلنے میں رکاوٹ ہے اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو دل سے بھاگنے پر مجبور کردیتی ہے، وہ گناہ اور معصیت ہے۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ، امامت اور انسان کامل میں فرماتے ہیں:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے لےکر امام زمان علیہ السلام تک، سب گناہ سے ڈرتے تھے۔ ان کا گناہ، ہمارے گناہوں جیسا نہیں؛ وہ ایک عظمت کا ادراک کرتے تھے۔ ان کی نظر میں عالم کثرت کیطرف توجہ گناہ کبیرہ ہے۔ ایک روایت کی روسے حضرت سجاد علیہ السلام صبح تک یہ دعا کرتے رہے: أللّٰہُمَ ارْزُقْنٰا التَّجافِيَ عَنْ دارِ الْغُرُورِ وَ الاِنٰابَۃَ اِلیٰ دارِ السُّرُورِ وَ الاِسْتَعْدادَ لِلْمَوتِ قَبْلَ حُلُولِ الفَوت} اے ﷲ! اس دار فریب سے دوری واجتناب، دار سرور کیطرف رجوع اور فرصت کے نکلنے سے پہلے موت کی تیاری کی توفیق عطا فرما۔ (اقبال الاعمال، ص ۲۲۸)
بات ایک اہم مسئلے کی ہے۔ وہ جب عظمت خداوندی کے سامنے اپنا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ خدا کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہےکہ ﷲ کے علاوہ کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ جب وہ عالم کثرت کیطرف نظر کرتے ہیں تو اسی حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں اگرچہ یہ نظر امر خداوندی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ [امامت اور انسان کامل، ص۱۱۱]