تاریخی دستاویزات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ جنوبی ایران میں واقع صوبۂ بوشہر کا علاقہ اپنی اسٹریٹیجک حیثیت کے پیش نظر تیسری ہزاری قبل مسیح سے ہی سمندری اڈے کےلۓ ایک مناسب مقام اور ایک آباد ساحل رہا ہے۔
یہ علاقہ عیلام بادشاہت کا ایک اہم مرکز بھی تھا۔ ہخامنشیوں کے عہد میں، کہ جب ایران بیس صوبوں پر مشتمل ایک ملک تھا، بوشہر مشرقی زاگرس اور پارس کے درمیان ایک صوبے کا حصہ تھا۔ اردشیر بابکان کے زمانے میں موجودہ بوشہر سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر رام اردشیر شہر کو تعمیر کیا گيا۔
آج اس شہر کے کھنڈرات ری شہر کے نام سے معروف ہیں۔
ساسانیوں کے دور میں ری شہر ایک آباد ساحلی شہر تھا اور اس کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اور اس کو ریو شہر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ظہور اسلام کے بعد کی چند صدیوں تک ری شہر میں کافی رونق رہتی تھی۔ پرتگالیوں کی دستاویزات کے مطابق سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں ریشہر ایک بڑے تجارتی مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہےکہ تیرہ سو دس ہجری شمسی میں قدیم شہر اور علاقے ریشہر کو ایران کی قومی میراث میں شامل کیا گیا۔
خلیج فارس کے علاقے کی سوق الجیشی، اقتصادی اور تجارتی اہمیت کے پیش نظر تاریخ میں مختلف ممالک اور حکومتوں نے علم و ثروت کے تبادلے اور اثر و رسوخ میں اضافے کےلۓ اس علاقے کو اپنی توجہ کا مرکز بناۓ رکھا۔
خلیج فارس کے ساحلی علاقوں پر یورپی حکومتوں نے اولین حملے پندرہ سو چھ میں کۓ۔ یہ حملے مصر اور وینس کے مقابلے میں پرتگال کے مفادات کے تحفظ کیلۓ کۓ گۓ۔ ایک ہزار اکتیس ہجری قمری کو شاہ عباس نے خلیج فارس سے پرتگالیوں کا اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم کردیا۔ صفوی عہد کے اواخر میں جنوبی ایران پر یورپی اور بعض ہمسایہ ممالک نے حملے کۓ۔ نادر شاہ افشار نے سیکورٹی نیز خلیج فارس کے سواحل اور جزائر کے درمیان باہمی رابطے کی برقراری کے مقصد سے بحریہ کو مسلح کرنے پر توجہ دی۔
گيارہ سو سینتالیس ہجری قمری مطابق سترہ سو پینتیس عیسوی کو عبدالطیف خان دشتستانی کو دشتستان میں جنوبی ساحلی علاقے کا کمانڈر مقرر کیا۔ لطیف خان نے موجودہ بوشہر کے مقام کو، جو کہ اس وقت ایک ساحلی آبادی شمار ہوتا تھا، اپنی کارروائی کےلۓ منتخب کیا۔ اس کے بعد سے بوشہر کو خلیج فارس کی ایک اہم بندرگاہ کی حیثیت حاصل ہوگئي۔
کریم خان زند کے زمانے میں خلیج فارس کے سواحل اور جزائر خصوصا بوشہر کی سرزمین میں انگریزوں کے اثر و رسوخ میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔
اور انہوں نے بوشہر میں ایک تجارتی مرکز بنانے کا لائسنس حاصل کر لیا۔ ایران میں زندیہ کے بعد قاجاری خاندان برسراقتدار آیا۔ اس خاندان کو خلیج فارس میں بالکل اثر و رسوخ حاصل نہیں تھا۔ اسی وجہ سے رفتہ رفتہ خلیج فارس میں انگریزوں کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گيا۔
سنہ بارہ سو ستائيس ہجری قمری مطابق اٹھارہ سو بارہ عیسوی کے بعد سے بوشہر میں تعینات برطانیہ کا قونصل جنرل خلیج فارس کے علاقے کا حاکم ہوا کرتا تھا۔ اس علاقے میں انگلستان کا نمائندہ اپنے آپ کو زیادہ طاقتور اور اس علاقے کے لوگوں کی جان و مال کا مالک سمجھتا تھا۔ اٹھارہ سو ستاون عیسوی میں ناصرالدین شاہ کے زمانے میں برطانوی حکومت نے حکومت ایران کی جانب سے ہرات اور افغانستان میں اپنے ناجائز مفادات خطرے میں پڑے کا بہانہ بنا کر جنوبی ایران پر حملہ کردیا اور جزیرۂ خارک پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد برطانوی فوجوں نے بوشہر کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ تنگستان، دشتستان اور بوشہر کے جنگجوؤں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر انگریز فوج کا مقابلہ کیا۔
پہلی عالمی جنگ سے پہلے برطانوی حکومت نے ایک بار پھر بوشہر کے علاقے پر حملہ کیا۔ اور انیس سو تیرہ میں برطانوی فوجیوں اور اس علاقے کے دلیر لوگوں کے درمیان شدید جنگ ہوئي۔
اس جنگ میں جنوبی ایران میں آئینی تحریک کے معروف حامی رئیس علی دلواری نیز تنگستان اور دشتستان کے شجاع لوگوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ سامراجیوں کے خلاف رئیس علی دلواری اور خطے کے علاقے کی جد و جہد سامراج سے مقابلے سے متعلق ایران کے بہادر باشندوں کی استقامت کی تاریخ کا ایک سنہری باب شمار ہوتی ہے۔
اب جبکہ آپ صوبۂ بوشہر کی تاریخ سے کسی قدر آشنا ہو چکے ہیں ۔ تو مناسب معلوم ہوتا ہےکہ ہم آپ کو ساحلی شہر بوشہر کے بارے میں بھی اختصار کے ساتھ آگاہ کردیں۔ بوشہر ایک بہت پرانا شہر ہے۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہےکہ یہ شہر ساسانی عہد میں بنایا گیا۔ امامزادہ بوشہر میں موجود ساسانی عہد سے متعلق سکہ اس دعوے کا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ ریشہر کے کھنڈرات میں ماہرین آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والی اشیاء سے بھی ہمارے اس دعوے کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ ایران کے دوسرے شہروں کی طرح بوشہر کو بھی بہت سے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا ہے۔
کریم خان زند کے زمانے میں اس ساحلی شہر کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اور اس زمانے میں یہ ساحلی عراق میں واقع ساحلی شہر بصرہ کا ایک زبردست حریف بن چکا تھا۔ اپنے عروج کے زمانے میں یہ بندرگاہ خلیج فارس کا ایک بڑا تجارتی مرکز شمار ہوتی تھی اور بوشہر کے تاجر ہی بحر ہند اور خلیج فارس کی تجارت کا کام انجام دیتے تھے۔ بوشہر کا شمار ان شہروں میں سے ہوتا ہے جہاں لیتھو پرنٹنگ پریس [چاپخانۂ سنگی] قیام کیا گیا۔
اور اس شہر میں ایران کے دوسروں شہروں سے پہلے برف اور بجلی کی پیداوار کے سلسلے میں کام کیا گیا۔ بوشہر کی سیاسی اور اقتصادی اہمیت کے پیش نظر اس شہر میں مختلف ممالک کے قونصلیٹ اور غیر ملکی کمپنیوں کے دفاتر موجود تھے۔
عصر حاضر میں بوشہر بہت پھیل چکا ہے اور اس کی تعمیر نو کی گئي ہے۔ یہ ایران کا ایک بہت اہم ساحلی شہر شمار ہوتا ہے جہاں زیادہ تر اقتصادی سرگرمیوں کا انحصار سمندری اشیاء پر ہے۔ اس اہم ساحلی شہر میں بہت سی جیٹیاں ہیں جہاں بحری جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں جن پر تجارتی سامان لادا اور اتارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس شہر میں بہت سی تاریخی عمارتیں بھی ہیں۔ ان عمارتوں میں سے ریشہر کے کھنڈرات، آب انبار قوام، عمارت ملک، مسجد شیخ، سعدون، خانۂ قاضی اور متعدد زیارتگاہوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔
حوالہ: خانه فرهنگ ایران راولپنڈی