مطہری: جو چیز آج کل ناپید ہوتی جا رہی ہے، وہ "خلوص نیت" ہے۔
علی مطہری نے انقلاب اسلامی کو دنیا کے دوسرے انقلابات سے موازنہ کرتے ہوئے کہا: فرانس کے انقلاب میں انسانی حقوق اور آزادی، اہم مقاصد میں شامل تھے اور روسی انقلاب میں، عدالت کو محوریت حاصل تھی؛ تاہم انقلاب اسلامی ایران میں آزادی، انسانی حقوق اور عدالت کا تصور اسلامی پیرائے میں پیش کیا گیا، اسی لئے ہمارے انقلاب سے جس انقلاب کو موازنہ کیا جاسکتا ہے، وہ صدر اسلام میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب ہے۔
ایلنا کے مطابق، تہران سے مجلس شورائے اسلامی میں عوامی نمائندے نے تاکید کرتے ہوئے کہا: اسلام کے آغاز اور عصر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ میں جس انقلاب کی شروعات ہوئی تھی وہ باقی نہیں رہا؛ فتح مکہ کے بعد جو لوگ ظاہری طور پر اسلام کے دائرے میں داخل ہوچکے تھے، وہ درحقیقت اسلام کے معتقد نہیں تھے اور پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد موقع پاتے ہی انقلاب کو تحریفی شکل دینا چاہتے تھے اور اسی لئے موقع کی تلاش میں تھے؛ شہید مرتضی مطہری کے بقول: " جب بھی اسلامی سماج اپنے راستے سے منحرف ہوجاتا ہے تو منافقوں کی اقلیت، مومنین کی اکثریت کو فریب اور دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے جس کی مثال سقیفہ اور جنگ صفین و غیرہ میں دکھائی دیتی ہے" لہذا اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہےکہ اگر ہم بھی جیسے چاہیں عمل کریں تو ہمارا انقلاب باقی رہےگا، کیونکہ اسلامی سماج کو ہمیشہ سے داخلی حالات سے خطرہ لاحق رہتا ہے اور اجنبی اور بیگانہ سوچ اور جدت پسند نیز انتہا پسندی، انقلاب میں انحراف کا باعث بن سکتی ہے۔
شہید مطہری کے صاحبزادے اور مجلس شورائے اسلامی ایران کے ڈپٹی اسپیکر نے انقلاب اسلامی کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے کہا: کلی طور پر قرآن کریم، چار موارد کو امتوں کی نابودی کے اسباب کے طور پر پیش کرتا ہے اور سماج میں عدالت پر ظلم کا غلبہ، انہی موارد میں سے ایک ہے، لیکن جس معاشرے کے لوگ نیک اور صالح ہوں، اللہ تعالی اس معاشرے کو ہلاکت سے دوچار نہیں کرتا۔
امتوں کی نابودی میں دخیل دوسرا عنصر، معاشرے کے افراد کا اخلاقی فسادات سے دوچار ہونا ہے اور ہم نے تاریخ میں دیکھا ہےکہ جو لوگ کسی قوم کو ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ پہلے اس قوم کے لوگوں میں اخلاقی برائیوں کو فروغ دیتے ہیں۔
امتوں کی تباہی میں دخیل تیسرا عامل، لوگوں میں انتشار اور اختلاف کا پایا جانا ہےکہ جب امام علی علیہ السلام نے اسلام کی بنیاد کو خطرے میں پایا تو خلافت کے ذمہ داروں کے ساتھ بیٹھ کر انہیں مشورہ دینے سے گریز نہیں کیا کیونکہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی نظر میں اسلام کی حفاظت، ہر شئے پر مقدم تھی؛ شهید مطهری رحمت اللہ علیہ، امام علی علیہ السلام کے اس عمل کو سراہتے ہوئے اسے اسلام کی حفاظت کا بہترین نمونہ قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے: " اسلام کی نظر میں لڑائی، جگڑا، اختلاف و انتشار، کسی بھی قوم کی متحدہ طاقت اور قوت کو تباہ و برباد کر دیتا ہے"۔
مطهری نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا نہ ہونے کو اقوام کی تباہی کا چوتھا عامل قرار دیتے ہوئے کہا: یہ عامل، تین دیگر عوامل کےلئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور انہیں برقرار رکھنے والا ہے۔
ایک اور چیز جو آج کل ناپید ہوتی جا رہی ہے، وہ "خلوص نیت" ہے، جبکہ ہمیں داخلی اور عالمی سطح پر اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔