اسلامی حکومت میں فکری اور عملی عدالت کا قیام

اسلامی حکومت میں فکری اور عملی عدالت کا قیام

یادگار امام: جج حضرات اور امر عدالت کے عہدہ داروں کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ اس طرح عمل کریں کہ عوام الناس حکم کو عقلی طور پر قبول کریں۔

یادگار امام سید حسن خمینی: جج حضرات اور امر عدالت کے عہدہ داروں کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ اس طرح عمل کریں کہ عوام الناس حکم کو عقلی طور پر قبول کریں۔

یادگار امام نے بانی اسلامی جمہوریہ کے عملی سیرہ کی چند اہم یادیں ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ، نظام کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ عوام خود، نظام اور عوام کے درمیان حَکَم اور داور ہے اور ممکن ہےکہ کوئی شخص نظام کے بڑے حصے کے متعلق شکایت کرے۔

جماران کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی نے آیت اللہ العظمی موسوی اردبیلی کی پہلی برسی کے موقع پر معظم لہ کی زندگی کے مختلف ادوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اظھار خیال کیا:

آپ کی زندگی کا اہم ترین دور جس نے ہمارے معاشرے کو بہت متأثر کیا، آپ کا انقلاب کے دور میں مکمل حاضر و کوشا اور آپ کا عدلیہ صدارت پر فائز رہنے کا دور تھا۔

حسن خمینی نے قضا کے فلسفہ کی بحث پر اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: آیت اللہ موسوی اردبیلی کے افق ِنظر میں عدلیہ کا کام صرف معاشرے میں عدالت کا اجرا نہیں تھا اور میں نے معظم لہ کے ہم باتوں سے جو کچھ سنا ہے اور آپ کی زندگانی کے متعلق کتابیں پڑھنے کے بعد درک کیا ہے، یہ ہےکہ عدلیہ کا کام صرف عدالت کا اجرا نہیں، بلکہ اس کے ساتھ جو کچھ عدالت کی مانند حامل اہمیت ہے، وہ معاشرے کو سنایا گیا حکم و فیصلہ کے متعلق قانع اور مطمئن کرنا کہ جو کچھ اجرا ہوگا وہ عدالت ہے یعنی فکری اور عملی دونوں حوالے سے عدالت قائم کیا جائے۔

سید حسن خمینی نے یاد دہانی کی کہ ہمارے بزرگ اساتذہ میں سے ایک نے کلاس میں ایک دن یہ سؤال کیا کہ ہمارے علم کلام کے مطابق، امیر المؤمنین(ع) جانتے تھےکہ "ابن ملجم" انھیں قتل کرنا چاہتا تھا؛ کیا امیر المؤمنین(ع) کی جان سے بڑھ کر بھی کوئی مصلحت ہوسکتی ہے؟ پھر کیوں امام (ع) نے ابن ملجم کو گرفتار کرنے کا حکم نہیں دیا؟

پھر استاد نے خود جواب دیا: "اگر بعد میں یہ پوچھا جاتا کہ کہاں سے یہ بات قطعی تھی کہ ابن ملجم یہ کام کرنا چاہتا تھا؟! شاید وہ امام کو شہید کرنا نہیں چاہتا تھا۔ چنانچہ گرفتاری کا حکم صادر ہونے کی صورت میں عوام کے اذہان کو قانع و مطمئن کرنے کا امکان نہ ہوتا"۔

یادگار امام نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ حاکمان، جج حضرات اور امر عدالت کے عہدہ داروں کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ اس طرح عمل کریں کہ عوام الناس حکم کو عقلی طور پر قبول کریں۔ اظہار خیال کیا:

منصفہ کمیٹی کی تشکیل کی بنیادی وجہ ہی یہ ہےکہ کیا حقیقتاً معاشرہ اس عمل کو جرم جانتا ہے یا نہیں؟ یہ امر ہہت ہی قابل اہمیت ہےکہ جب آپ کوٹ میں جاتے ہیں، آپ کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ مجھے کیا کرنا چاہئے تاکہ جج مجھے کو مجرم نہ جانے یا کونسا گناہ و خطا مرتکب ہونے کی صورت میں قاضی مجھے مجرم جانےگا؟ یعنی عدالت کا فیصلہ قابل پیش بینی ہونا انتہائی ضروری ہے اور عدلیہ کے قیام کا اصل مقصد ہی یہ ہے۔

آپ وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو شرعی ہٹکنڈوں کے ذریعے اپنے کام ٹھیک کرتے ہیں۔

آپ نے اس سوال کے جواب میں کیا کرنا چاہئے تاکہ قاضی کا حکم قابل پیش بینی ہو؟ یاد دہانی کی کہ پیغمبر اعظم(ص) فرماتے ہیں: عقلانی طریقوں پر اعتماد کرنا چاہئے۔ آنحضرت (ص) اپنے علم غیب پر ہرگز عمل نہیں کرتے تھے اور صرف عقلی قواعد پر بھروسہ کرنے کی تاکید کرتے تھے؛ مرحوم آقائے اردبیلی کا نظریہ بھی یہی تھا۔

اور میں عدلیہ سے خطاب کرتے ہوئے امام راحل (رح) کے اس آٹھ شقوں پرمشتمل اعلامیے کو کہ جس میں آپ فرماتے ہیں: "اگر عدلیہ، کسی جاسوسی ٹیم کی تلاش میں جو نظام جمہوری اسلامی کے خلاف مصروف عمل ہے، غلطی سے کسی کے ذاتی گھر یا دفتر میں داخل ہوتا ہے اور وہاں آلات موسیقی، قمار بازی، فحشا اور دیگر انحرافاتی وسائل جیسے چرس پاتا ہے تو عدلیہ کو ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا ہےکہ ان سب کو فاش کرے" اسی نکتہ پر حمل کرتا ہوں۔

ای میل کریں